’آخری حربہ‘: غزہ میں فضا سے امداد گرانے میں کیا مشکلات ہیں؟

غزہ میں انسانی بحران کے سنگین ہونے کے بعد اب امریکہ نے کہا ہے کہ وہ فضا سے ہنگامی امداد پہنچانے میں اپنے کچھ عرب اور یورپی اتحادیوں کا ساتھ دے گا۔

یکم مارچ 2024 کو فلسطینی شہری غزہ شہر میں فضا سے گرائے جانے والے امدادی سامان کے حصول کے لیے دوڑ رہے ہیں (اے ایف پی)

غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں انسانی بحران کے سنگین ہونے کے بعد اب امریکہ نے کہا ہے کہ وہ فضا سے ہنگامی امداد پہنچانے میں اپنے کچھ عرب اور یورپی اتحادیوں کا ساتھ دے گا۔

تقریباً پانچ ماہ کی اسرائیلی جارحیت کے دوران بحیرہ روم کے کنارے آباد اس تنگ پٹی میں زمینی راستوں سے امداد کی ترسیل میں کمی آئی ہے جس سے غزہ کے شہریوں کو خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

جمعرات کو شمالی غزہ میں امداد پہنچانے والے ٹرکوں کے قافلے پر اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے 100 سے زائد فلسطینی جان سے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

زمینی راستوں سے امداد بند ہونے کے بعد کچھ ممالک نے غزہ کے لیے امدادی سامان ہوائی جہازوں سے گرایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سات اکتوبر 2023 کے بعد سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اردن نے برطانیہ، فرانس اور نیدرلینڈز سمیت کئی ممالک کی حمایت سے فضائی آپریشن شروع کیا ہے۔

مصر نے بھی متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر جمعرات کو فضا کے ذریعے امدادی اشیا غزہ میں گرائی تھیں۔

اور اب امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو کہا ہے کہ واشنگٹن آنے والے دنوں میں غزہ کے لیے فضائی رسد کی فراہمی شروع کر دے گا۔

صدر بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ وہ اسرائیل کو زمینی راستے سے مزید امدادی قافلوں کی اجازت دینے پر ’اصرار‘ کریں گے۔

ان کے بقول: ’اس میں کوئی عذر نہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے لیے امداد کا بہاؤ کافی نہیں ہے۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ غزہ میں بڑی مقدار میں سامان پہنچانے کے لیے ممکنہ ’سمندری راہداری‘ کے بارے میں بھی غور کرے گا۔

’امدادی سامان سمندر میں گر کر ضائع‘

وسطی غزہ میں الصابرہ سے تعلق رکھنے والے عماد نامی شخص نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ پیراشوٹ سے گرائے گئے امدادی سامان سے کچھ خوراک اور پانی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن یہ امداد کے منتظر ہر ایک شہری کے حصے میں نہیں آئی۔

44 سالہ عماد نے کہا: ’بالآخر میں پاستا اور پنیر کے کچھ تھیلے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن میرے کزن کچھ حاصل نہیں کر سکے۔‘

ان کے بقول: ’میں خوش تھا کیونکہ میں نے بچوں کے لیے کچھ کھانا حاصل کر لیا تھا لیکن یہ کافی نہیں تھا۔‘

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 30 ہزار 228 افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔

شمالی غزہ میں جہاں اسرائیل نے اپنی زمینی کارروائی شروع کی ہے، بہت سے رہائشی جانوروں کا چارہ کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت نے جمعے کو کہا کہ 10 بچے غذا اور پانی کی کمی سے مر چکے ہیں۔

پرہجوم کیمپوں اور شہروں پر امدادی پارسل گرنے کے خطرات کے ساتھ ساتھ ساحلی علاقے کے رہائشیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ بہت سے امدادی پیکٹس بحیرہ روم میں گر کر ضائع ہو گئے۔

غزہ شہر میں اپنی اہلیہ اور پانچ بچوں کے ساتھ رہنے والے ہانی غبون نے کہا: ’زیادہ تر امداد آج سمندر میں گر گئی اور جمعرات اور بدھ کو گرائے گئے زیادہ تر امدادی پیراشوٹ بھی سمندر کی نذر ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کو ’قحط سے نمٹنے اور لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے سینکڑوں ٹن امداد کی ضرورت ہے۔‘

’آخری حربہ‘

اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر او سی ایچ اے کے ترجمان جینس لایرکے نے جمعے کو کہا کہ فضائی امداد کے ساتھ بہت سے مسائل منسلک ہیں۔

انہوں نے کہا: ’اس طریقے سے آنے والی امداد ایک آخری حربہ ہونا چاہیے اور یہ غزہ کے لیے وہ حل نہیں جسے ہم ترجیح دیتے ہیں۔ زمینی راستوں سے ترسیل بہتر، زیادہ موثر اور کم خرچ ہے۔‘

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کچھ تبدیل نہیں ہوتا تو موجودہ صورت حال میں قحط تقریباً ناگزیر ہے۔

اقوام متحدہ نے اسرائیلی فورسز پر غزہ تک امداد کی رسائی کو ’منظم طریقے سے‘ روکنے کا الزام لگایا ہے جس کی اسرائیل تردید کرتا ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے سمیت امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ غزہ میں زمینی راستوں سے قافلے بھیجنا بہترین حل ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیریش کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ تقریباً ایک ہزار ٹرک مصری سرحد پر غزہ جانے کے منتظر ہیں۔

سٹیفن ڈوجارک نے اس ہفتے ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ فضا سے امداد کی ترسیل انتہائی چیلنجنگ ہے لیکن تمام آپپشنز زیر غور ہیں۔

ریفیوجیز انٹرنیشنل کے صدر جیریمی کونینڈک نے کہا کہ فضائی امداد صرف محدود مدد کر سکتی ہے۔

انہوں نے جمعے کو بی بی سی ورلڈ سروس کو بتایا کہ ایک طیارہ دو ٹرکوں کے برابر امداد پہنچا سکتا ہے لیکن اس کی لاگت 10 گنا زیادہ ہے۔

ان کے بقول: ’فضا سے کھانا گرانے کے بجائے ہمیں اسرائیلی حکومت پر بہت زیادہ دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ زیادہ روایتی چینلز کے ذریعے امداد کی اجازت دی جا سکے جس کی درحقیقت بڑے پیمانے پر ضرورت ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا