خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے غزہ کی وزارت صحت کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے جمعرات کو امدادی ٹرکوں کی طرف بڑھنے والے ہجوم پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 104 افراد جان سے گئے۔
تقریباً پانچ ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت میں یہ بدترین واقعہ ہے۔ وزارت نے بتایا کہ اس واقعے میں 750 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔
یہ واقعہ امدادی اداروں کی جانب سے غزہ کی انسانی صورت حال پر انتباہ جاری کیے جانے بعد پیش آیا۔ خاص طور پر غزہ کے شمالی علاقوں میں قحط کا خطرہ ہے۔
غزہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان اشرف القدرہ کے مطابق: ’غزہ شہر کے نابلسی چوک پر قابض (اسرائیلی) فوج کی گولیوں سے سینکڑوں افراد جان سے گئے اور زخمی ہوئے۔ انہوں نے واقعے ’قتل عام‘ قرار دیا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے سے متعلق رپورٹوں کی ’جانچ‘ کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر او سی ایچ اے کا کہنا ہے کہ ’وہ ان اطلاعات سے واقف ہے۔‘
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ یہ واقعہ غزہ شہر کے مغربی حصے میں نابلسی چوک میں اس وقت پیش آیا جب ہزاروں افراد امدادی سامان کے ٹرکوں کی طرف دوڑ پڑے۔
عینی شاہدین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’امدادی سامان سے بھرے ٹرک علاقے میں موجود کچھ ٹینکوں کے بہت قریب آ گئے۔ ہزاروں افراد نے ٹرکوں پر دھاوا بول دیا۔
‘’فوجیوں نے ہجوم پر فائرنگ کی کیوں کہ لوگ ٹینکوں کے بہت قریب آ گئے تھے۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی آبادی کی اکثریت یعنی 22 لاکھ افراد کو قحط کا خطرہ ہے۔ خاص طور پر شمالی علاقوں میں جہاں تباہی، لڑائی اور لوٹ مار کی وجہ سے خوراک کی فراہمی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے کے مطابق فروری میں صرف 2300 امدادی ٹرک غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے جو جنوری کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد کم ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے غزہ کی وزارت صحت کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں جان سے جانے والے فلسطینیوں شہریوں کی تعداد 30 ہزار سے بڑھ گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی فوجی کارروائی سے اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد ابراہیم احمد کے لیے ٹھوس اور روز مرہ کی حقیقت ہے۔ وہ جنگ سے پہلے کی طرح گھروں کی تعمیر کی بجائے قبریں کھودنے کا کام کرتے ہیں۔
غزہ کی 23 لاکھ آبادی کی طرح بے گھر ہونے والے احمد بھی رفح میں واقع تل السلطان قبرستان میں اپنا دن گزارتے ہیں۔
وہ ریتلے علاقے میں قطار کی شکل میں قبریں تیار کرتے ہیں اور کتبوں کی کمی کی وجہ سے ان کی جگہ سیمنٹ کے بلاک استعمال کرتے ہیں۔
احمد نے کہا: ’احساسات رکھنے والے انسان کی حیثیت سے ولاز اور اپارٹمنٹس کی تعمیر، جو مجھے بہت پسند ہے، سے قبریں کھودنا تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے، اموات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، کاش میں یہ کام بند کر سکتا۔
’میرا کام مشکل تھا لیکن میں کامیابی کے احساس کے ساتھ گھر جاتا تھا۔ میں نے نئی چیزیں بنائیں، ہر روز مختلف عمارت مختلف آرائشی کام کیے۔ میں اچھے موڈ میں گھر لوٹتا تھا۔اب ہر روز سوگوار رشتہ داروں کی لاشیں آتی ہیں۔
’میں مختلف لوگوں کو دیکھتا ہوں لیکن ایک ہی چہرے کے ساتھ، ایک ہی تکلیف کے ساتھ۔ یہ مایوس کن صورت حال ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔