سندھ چائلڈ میرج ایکٹ کے 10 سال: مزید کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون بننا اہم سہی لیکن اصل چیز سوچ بدلنا ہے جس میں وقت لگے گا۔

کم عمری کی شادیاں پورے خطے کا معاملہ ہے (اے ایف پی فائل)

پچھلے دنوں ایک نیوز چینل کی ایک سٹوری نظر سے گزری۔ خبرکی سرخی کے مطابق ویڈیو کلپ میں ایک 12 سالہ بچی کی شادی 13 سالہ لڑکے سے ہوئی۔ منظر میں خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ، کم سن دولہا اپنی دلہن کو مٹھائی کھلا رہا ہے، البتہ خبر میں اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا کہ یہ تقریب کب اور کہاں ہوئی۔

بظاہرویڈیو میں موجود خاندان کا تعلق پنجاب سے لگتا ہے جہاں کے قانون کے مطابق بھی کم سن بچوں کی شادی ایک جرم ہے۔ لیکن ٹی وی چینل کی ویڈیو میں خبریت صرف اتنی تھی کہ خاندان نے لڑکے کی ضد پر اس کی شادی کرا دی کیونکہ اس کا اپنی تعلیم میں دل نہیں لگتا تھا۔

اس خبر کی تصدیق کے لیے ہم نے لاہور کے رپورٹر آصف محمود سے بات کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خبر کل ان کی نظر سے گزری ضرور تھی لیکن خبر وہ نہیں جو ٹی وی چینل پر بتائی گئی ہے۔ ان کے مطابق اس خبر کی بنیاد ایک ٹک ٹاک ریل تھی۔ جس میں دو بہنوں نے اپنے بچوں کی شادی طے کی تھی۔ چینل نے ٹک ٹاک سے لی گئی خاندانی ویڈیو پر اپنی خبر بنائی لیکن خبر ہی بدل دی، جس میں انہوں نے اپنے بچوں کی بات پکی کی تھی۔

 آصف نے ہمیں ایک خبر بھیجی جس میں بچوں کے خاندان نے بتایا ہے کہ ابھی صرف منگنی کی جائے گی۔ والدہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے ٹک ٹاک چینل پر رشتہ پکا کرنے کی ویڈیو پوسٹ کی تھی۔ خالہ کا بھی واضح طور پر کہنا تھا کہ بچوں کا ابھی نکاح نہیں ہوا۔

جب ہم جانتے ہیں کہ چائلڈ میرج قانون کی رو سے بچوں کی شادی ایک جرم ہے تو پھر ٹی وی چینل کو یہ سب دکھانے کی کیا ضرورت تھی، وہ بھی اتنے خوشنما انداز میں؟ حالانکہ بچہ ابھی چھٹی جماعت کا طالب علم ہے اور بچی کی کون سی جماعت میں پڑھ رہی ہے وہ اہم ہی نہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ کم عمری کی شادی کا قانون نیا نہیں، لیکن جب اس طرح کی خبریں رنگینی کے ساتھ پیش کی جاتی رہیں گی تو سوچ کیسے بدلے گی۔

سندھ میں چائلد میرج ایکٹ کو بنے ہوئے کم و پیش دس سال ہو رہے ہیں۔ اس کی رو سے 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی نہیں کی جا سکتی، لیکن پھر بھی ہم کم عمر شادیاں دیکھتے رہتے ہیں۔ یقیناً صورت حال جلد نہیں بدلے گی۔ سندھ سمیت پورے پاکستان میں رجحانات اور سوچنے بدلنے کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف ہمارا نہیں پورے خطے کا مسئلہ ہے۔ یونیسیف کی پچھلے سال کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کی ہر چوتھی لڑکی 18 سال سے پہلے دلہن بن جاتی ہے جبکہ ہر تیسری بچی 18 سال سے کم عمر میں ماں بنتی ہے۔ یہ 29 کروڑ کم عمر دلہنوں کا مسکن ہے۔ ان گھرانوں کی اکثریت دیہاتی پس منظر، غریب اور کم تعلیم یافتہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ ہر پانچوں لڑکا 18 سال سے پہلے دولہا بنتا ہے۔ یونیسیف چاہتی ہے کہ 2030 تک دنیا سے کم عمری کی شادی ختم کر دی جائے لیکن خود یونیسیف مانتی ہے کہ کم عمری کی شادی ختم کرنے کے لیے ہمارے براعظم کو 55 سال سال کا عرصہ درکار ہے۔ ہمارے خطے میں، قدرتی آفات اور جنگ و جدل کا راج ہے۔ جہاں امن نہ ہو وہاں انسانی المیے ہی جنم لیتے ہیں سوچیں نہیں بدلتیں۔

آئیں سمجھتے ہیں کہ ابھی کن کن پہلوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

بیلا رضا، ماہر تعلیم ہیں اور ایک ادارہ ’تعلیم و آگاہی‘ بھی چلاتی ہیں۔ اس کے مختلف مراکز پاکستان کے دیگر شہروں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا کم سن بچوں کی شادی کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’سندھ پورے ملک میں قانون سازی میں سب سے آگے ہے، لیکن مطلوبہ نتائج اسی وقت ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں جب معیاری تعلیم دی جائے گی۔‘

انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ پچھلے سال ستمبر میں حیدرآباد میں منعقد ہونے والے  Children Out of School پروگرام میں ایک ماں چیخ چیخ کر اپنی کہانی سنا رہی تھی کہ چھوٹی بچیوں کی شادی نہ کریں کیونکہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی کم عمری میں کر کے کھو دی تھی۔ اس کی کم عمر اور کمزور حاملہ بیٹی نہ خود بچ سکی، نہ اس کا بچہ۔

 بیلا نے زور دیا کہ ’جب تک پرائمری اور سکینڈری سطح کی تعلیم کو بہتر نہیں کیا جائے گا یہ اور اس جیسے کئی مسائل حل کی طرف نہیں جائیں گے۔ ہم اب تک معیاری تعلیمی نظام نہیں بنا سکے۔‘

انہوں نے پاکستان کے تعلیمی اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا کہ ’دنیا کے 2.6 کروڑ بچوں سے میں سب سے زیادہ سکولوں سے باہر بچے پاکستان میں بستے ہیں۔ اب قانون سازی کے ساتھ ساتھ ان امور پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے ایک اور نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ ’جب تک خواتین کو انٹرپرائز کی طرف نہیں لایا جائے گا اس وقت تک ماحول اور سوچ نہیں بدلے گی۔ حکومت کو مسائل کے حل کے لیے وسائل پیدا کرنے ہوں گے۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ لڑکیاں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اپنی دستکاری کی چیزیں بیچ رہی ہیں۔ ہمیں اپنے ماحول کے مطابق لوگوں کے شوق اور ہنر سے تیارکی گئی چیزوں کو مارکیٹ کرنا ہو گا جس کے لیے حکومت اور پرائیوٹ اداروں کو بھی سامنے آنا پڑے گا۔‘

بیلا نے توجہ دلائی کہ سندھ میں پرائیوٹ سکٹر صرف 12 فیصد ہے۔ یہ شرح پاکستان بھر میں سب سے کم ہیں۔ ان کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

بیلا مانتی ہیں کہ ہمارے ہاں عام رجحان ہے کہ لڑکوں پر تو پھر پیسے خرچ کیے جائیں گے لیکن لڑکیوں کی تعلیم پہلی ترجیح نہیں۔ یہاں غریب والدین بھی قصوروار نہیں، سندھ میں قدرتی آفات نے اور تباہی مچائی ہے۔ جب ان کے گھروں میں بنیادی مسئلہ ہی کھانے پینے کی تنگی کا ہو تو تعلیم کو فضول چیز ہی سمجھیں گے۔ ساتھ ہی اندرون سندھ میں اکثر والدین شکایت کرتے ہیں کہ بچیوں کے سکول اتنی دور دور ہیں کہ وہ بچیوں کے وہاں بھیجنے میں ہچکچاتے ہیں۔

یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ اگر اکثر بچیاں میٹرک سے پہلے ہی سکول چھور دیتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ خیر پور جیسے واقعات رپوٹ ہوتے ہیں۔ سندھ میں آرٹیکل 25 اے موجود ہے جو بنیادی تعلیم کو ہر پاکستانی کا حق تسلیم کرتا ہے۔ حکومت تعلیم کا بجٹ بڑھا کر معیاری تعلیم عام کرے اور لوگوں کو روزگار دے، یقین کریں رجحانات بھی بدل جائیں گے۔

سندھ کے سماج پر گہری نظر رکھنے والی ڈاکٹر حسین مسرت کا تعلق حیدر آباد ہے ہے۔ وہ ایک سرکاری کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر اور ویمنزایکشن فورم کی رکن ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جب شہروں میں کم عمری کی شادی کر دی جاتی ہے تو گاؤں دیہاتوں میں کیا حال ہو گا۔ میری اپنی کئی شاگرد ہیں جن کی شادی کر دی گئی ہے۔ اب وہ کالج سے غیر حاضر ہونے لگی ہیں۔ بس جو شوق رکھتی ہیں اور خاندان بھی مدد فراہم کر رہے ہیں وہ گاہے بگاہے کالج پہنچ جاتی ہیں، لیکن یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟‘

ڈاکٹر حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کم عمر شادی کے قانون اور خواتین کے دیگر حقوق پر بات کی جا رہی ہے۔ لیکن سوچیں گاوں میں رہنے والی بچی کو کیسے معلوم ہو گا کہ ریاست اسے کیا کیا حقوق دے رہی ہے اور اس حوالے سے وہ کس سے اور کیسے بات کرئے۔ ان بنیادی باتوں پر بھی توجہ دینے کی کوشش کی جانی چاہیے۔‘

سینیئر پولیس شہیلا قریشی کے مطابق سندھ پولیس نے کافی کام کیے ہیں۔ شہلا نے بتایا کہ ’اس حوالے سے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو تربیت دی گئی ہے۔ ساتھ ہی مختلف این جی اوز کے ساتھ مل کر مولوی صاحبان سے بھی بات کر رہے ہیں۔ یہ سب شعوری کوشش ہے۔ انہیں تیار کر رہے ہیں کہ وہ کم عمر بچوں کا نکاح نہ پڑھائیں۔ والدین کی بھی سائیکو سوشل سپورٹ کے حوالے سے بھی بچوں کی مدد کی گئی ہے۔ ہم نے ویمن اور چائلد پروٹیکشن سیل بنائے ہیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 30 اضلاع میں 30 ڈیسک بنائے گئے ہیں۔ جس میں چائلد پروٹیکشن آفسر تعینات ہوتا ہے۔ جو کیس میں مدد فراہم کرتا ہے۔

عظمیٰ نورانی پناہ شیلٹر ہوم کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’2013 میں قانون بن گیا تھا لیکن اس کے رولز اور پھر نافذ ہونے میں کافی وقت لگا۔ پناہ میں کم عمری کی شادی کے کیسز آتے تھے۔ پہلے یہ ہی دیکھا جاتا تھا کہ ججز نوٹس نہیں لیتے اور 16 سال کی لڑکی کو شوہر کے ساتھ جانے دیتے تھے۔ لیکن پچھلے دو تین سالوں سے فرق آیا ہے، خاص کر دعا زہرہ کیسز کے بعد سے ججز نے کافی بہتر فیصلے کیے ہیں۔

’ہمارے پاس بھی وہ کیسز آتے ہیں جس میں ماں باپ اغوا کا کیسز رجسٹرکراتے ہیں، اکثر میں چائلڈ میرج سامنے آ جاتا ہے۔ جس کے بعد بچی کو شیلٹر بھیج دیا جاتا تھا لیکن چائلڈ پروٹیکشن سیل کے بعد پیش رفت ہوئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ خود کتنے مستحکم ہیں اور براہ راست ان کے پاس کتنے کیسز آتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’قانون کے تحت وجیلنٹ کمیٹیاں بننا تھیں۔ ساتھ ہی محلہ، تعلقہ اور ضلع کی سطح پر آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں دو طرح کے کیسز ہیں۔ ایک وہ جس میں والدین بچوں کی شادیاں کرا رہے ہیں اور دوسرے میں بچے بچیاں خود شادی کر رہے ہیں۔‘

آہنگ سے منسلک آمنہ کا کہنا ہے کہ ’ہم چائلڈ میرج سے زیادہ چائلڈ پروٹیکشن پر بات کرتے ہیں۔ بچوں کو آگاہی دینا ضروری ہے تاکہ ان کے ساتھ کوئی بھی زیادتی ہوتی ہے تو وہ بتا سکیں۔ یونیسیف2018 کی رپورٹ کے مطابق ہر پانچویں بچی کی شادی کر دی جاتی ہے۔

’آج کے اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ ہر صوبے میں قانون الگ الگ ہےاور ہمارے ملک میں پہلے کرونا اور پھر سیلاب کی وجہ سے معیشت خراب ہے۔ چائلڈ میرج اور زبردستی شادی کا رواج جیسے ’پیٹ لکھے‘ اور’وٹہ سٹہ‘ اور بچیوں کی قرضہ اتارنے کے چکر میں شادی کر دی جاتی ہے۔ یہاں آگاہی اور بار بار بات کرنے کی ضرورت ہے۔

’میڈیا 80 سال سے بوڑھے کی بچی سے شادی کی خبر تو سامنے لاتا ہے لیکن گاہے بگاہے آگاہی کے لیے کام نہیں کرتا۔ سماج اور اقدار کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے اس پر سوچنا چاہیے۔ تولیدی صحت پر بھی بات کرنا ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے بچی کا بچپن نہ چھینیں۔ غربت اس کی وجہ نہیں ہے۔

’لڑکیوں کی ذمہ داری ختم کرنے کے لیے انہیں بیاہ دینا بھی غلط ہے۔ بہتر معاشرے کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ کم از کم بچوں کو تعلیم اور آگاہی فراہم کریں۔ تاکہ وہ بہتر فیصلے کر سکیں۔‘

ان ماہرین کی باتوں سے انداز ہوتا ہے کہ سوچ بدلنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ ان میں سب سے پہلے معیاری تعلیم اور روزگار کا ہونا ضروری ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین