مریم سمیت کئی کو سوشل میڈیا پر نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟

گذشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان میں نئی حکومت بنتے ہی پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، آصف علی زرداری اور پھر کئی دیگر شخصیات کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چار مارچ 2024 کو لاہور کے ایک سرکاری سکول کا دورہ کیا تھا (مسلم لیگ ن)

پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاسی رہنماؤں کے خلاف مخالفین کے پروپیگنڈے اور اور سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کچھ بھی پھیلانا ایک معمول سا بن گیا ہے جس پر زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی حد تک یقین بھی کرنے لگتے ہیں۔

سیاست میں تنقید برائے اصلاح کی بجائے تنقید برائے تنقید کا عنصر زیادہ حاوی ہوتا جا رہا ہے، مگر ترقی یافتہ بیشتر ممالک میں ہتک عزت کے قوانین اور جھوٹی خبریں پھیلانے سے متعلق قوانین پر عمل درآمد سے کافی حد تک جھوٹے الزامات اور بے بنیاد خبریں پھیلانا کافی مشکل ہوتا ہے۔

لیکن پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں بڑے بڑے من گھڑت اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر حکمرانوں کی شہرت منفی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس ضمن میں گذشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بغیر کسی نگرانی کے استعمال ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

تجزیہ کار وجاہت مسعود کے مطابق گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں کارکردگی کی بجائے مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر لوگوں کو غلط سمت سوچنے پر مجبور کیا جارہا ہے، جس سے نہ صرف حکومتی شخصیات کو کارکردگی پر توجہ دینے سے روک کر اپنے خلاف مہمات پر قابو پانے کے لیے ٹائم صرف کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس طرح نہ صرف لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے بلکہ نظام پر عوام کا اعتماد بھی کم ہونے کا خدشہ ہے۔

حالیہ پروپیگنڈا

گذشتہ چند دنوں میں نئی حکومت بنتے ہی پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے خلاف مہم چلائی گئی کہ وہ لاہور میں لڑکیوں کے ایک سکول میں جغرافیہ کی کتاب کا ٹائٹل نہیں پڑھ سکیں۔ حالانکہ انہوں نے کتاب پکڑ کر بچوں سے پوچھا تھا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔

اسی طرح کامپری ہنسیو گرلز ہائی سکول لاہور میں دورے کے دوران بنائی گئی ایک ویڈیو پر پروپیگنڈا کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کو خاتون پرنسپل نے کہا کہ ان کے آنے سے بچے کنفیوژ ہوتے ہیں جس پر انہیں مبینہ طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

تاہم جب چیف ایگزیکٹو ایجوکیشن اتھارٹی پنجاب پرویز اختر سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ جھوٹ ہے۔ کسی استاد کو فارغ کیا گیا نہ تبادلہ کیا گیا ہے۔‘

اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک اور مہم چلتی دکھائی دی کہ چند دن پہلے لاہور کے ایچیسن کالج میں آٹھ مارچ کو ایک تقریب میں مریم نواز نعرے بازی کے خوف سے نہیں آئیں اور بچوں نے انہیں مہمان نہ بنانے کی کالج انتظامیہ کو ای میلز کی تھیں۔

اس بارے میں ایچیسن کالج کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

اس کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری کے متعلق معلومات دکھائی دیں کہ ان کا ’دماغ بیماری کے باعث سکڑ رہا ہے وہ مکمل فٹ نہیں ہیں۔‘

جب اس بارح میں جاننے کے لیے آصف علی زرداری کے سابق ترجمان میاں شمس سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’زرداری صاحب کا 2004 میں دل کی تکلیف کے باعث سٹنٹ ڈالے گئے تھے۔ اس کے بعد عمر گزرنے کے ساتھ بلڈ پریشر یا ذیابیطس جیسے امراض تو معمول کا حصہ ہوتے ہیں، لیکن جہاں تک دماغ سکڑنے سے متعلق پروپیگنڈا کی بات ہے تو وہ اب تک ان کی سیاسی بصیرت اور فیصلوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا دماغ ملک میں تمام سیاسی قیادت سے بہتر کام کرتا ہے۔‘

اسی طرح گذشتہ کئی سالوں سے نہ صرف حکومتی عہدیداروں بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان، فوجی سربراہ کے خلاف بھی کئی الزامات لگا کر پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔

اس ضمن میں کئی سوشل میڈیا ایکٹویسٹس کو گرفتار بھی کیا گیا مگر ابھی تک کوئی موثر حکمت عملی نہ بننے سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ حکام کو شاید اس کا واحد حل یہ سمجھ آیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس انتخابات کے بعد سے وی پی این کے بغیر چل نہیں رہا۔

آصف زرداری کے سابق ترجمان میاں شمس کے بقول معاشرے میں بہتری کے لیے سائنس کی نہیں بلکہ سوشل سائنس میں اقدامات ناگزیر ہیں۔ لوگوں کو سچ اور جھوٹ میں فرق پرکھنے کا شعور دینا ضروری ہے۔

جھوٹے الزامات کے اثرات

تجزیہ کار وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کا ایک دوسرے کے خلاف بیان دینا یا پروپیگنڈا کرنا ویسے تو معمول کی بات ہے لیکن کسی عہدیدار کو بلاوجہ ٹارگٹ کر کے ذاتی طور پر جھوٹے الزامات لگانا بہت خطرناک ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کے الزامات سے نہ صرف حکومتی عہدیداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ لوگوں کے سامنے ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ سب ہی غلط ہیں، جس سے اچھائی اور برائی کا فرق مٹنے لگتا ہے۔‘

’دنیا میں جب سے سوشل میڈیا نے فروغ پایا ہے پاپولسٹ لیڈروں کو فائدہ پہنچا ہے۔ ان کی کارکردگی بری بھی ہو تو مخالفین کو منفی پروپیگنڈے سے عوام میں غیر مقبول کر دیا جاتا ہے۔ جیسے امریکہ میں ٹرمپ، انڈیا میں مودی اور پاکستان میں عمران خان کی مثالیں موجود ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’ان لیڈروں کے حامی اپنے مخالفین کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر معلومات کو مرضی کا اینگل دے کر یا جھوٹی معلومات کی بنیاد پر غیر مقبول کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اسی لیے ان کے علاوہ بھی کئی ملکوں کے لیڈر اپنی شہرت اور مخالفین کی غیر مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘

’ہمارے ہاں ہتک عزت سمیت جھوٹی معلومات پھیلانے سے متعلق قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ اس لیے ریاست میں اخلاقی تربیت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور سزا و جزا کا نظام مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔‘

وجاہت مسعود کے مطابق ’اس وقت دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر منفی مہمات روکنا ایک چیلنج ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ پلیٹ فارم پوسٹ یا ویڈیو وائرل ہونے پر پیسہ دیتے ہیں لہذا جھوٹ یا غیراخلاقی معلومات پر مبنی ویڈیو یا پوسٹ وائرل ہونے سے پیسہ کمانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

’اس لیے آزادی اظہار رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے جامعہ پالیسی بنانے کے ساتھ شہریوں کی فکری تربیت لازمی ہوچکی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست