شدت پسند گروپوں کا اتحاد اور نئے ضم شدہ اضلاع

پاکستانی پالیسی سازوں کو ضم شدہ اضلاع میں شدت پسند گروپوں کو کمزور کرنے کے لیے ان کے اتحادوں کو توڑنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔

25 اگست، 2022 کو افغان صوبے پروان میں ایک طالبان جنگجو نظر آ رہا ہے (اے ایف پی/ وکیل کوہسار)

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان کے نئے ضم شدہ اضلاع (این ایم ڈیز) کے عسکریت پسندانہ منظر نامے میں تبدیلی آئی ہے اور جہاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حافظ گل بہادر جیسے عسکریت پسند گروہ دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں وہیں تحریک جہاد پاکستان جیسی نئی تنظیمیں ابھر رہی ہیں۔

ایسے رجحانات نے نئے ضم شدہ اضلاع میں خطرے کے نوعیت کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا ہے۔

اس عدم استحکام کے ماحول میں ضم شدہ اضلاع کے اندر اور باہر کام کرنے والے مختلف عسکریت پسند گروہ گذشتہ عرصے میں تقسیم اور دوبارہ ضم ہونے کے مراحل سے کئی بار گزر چکے ہیں۔

لہٰذا ضم شدہ اضلاع میں داعش خراسان کے علاوہ مختلف عسکریت پسند گروہوں کے نیٹ ورک، افراد اور گروہوں کو تحریک کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو ایک مشترکہ نظریے پر قائم ہیں۔

موجودہ صورت حال میں چار اہم رجحانات دکھائی دے رہے ہیں۔

  • پہلا، عسکریت پسند گروپوں کے تنظیمی ڈھانچے کو مرکزیت میں بدل دیا گیا ہے۔
  • دوسرا، تقسیم نے انضمام اور اتحاد کے راستوں کو ہموار کیا ہے۔
  • تیسرا، عالمگیریت اور علاقائی نظریاتی بیانیے کمزور پڑ گئے ہیں جس کے سبب عسکریت پسندوں کے اہداف اور مقاصد میں مقامیت آئی ہے۔
  • چوتھا، تشدد کے ذریعے مضبوط پروپیگنڈا وجود میں آیا ہے۔

یہ تبدیلیاں عسکریت پسند گروہوں میں نئے نسل کی موجودگی کی طرف اشارہ ہیں۔

عسکریت پسندوں کی Gen-Z اپنے رہنماؤں کے مقابلے میں سیاسی طور پر مضبوط سوچ، حکمت عملی کے لحاظ سے زیادہ ہوشیار، اور ٹیکنالوجی سے واقفیت رکھتی ہے۔

افغانستان سے امریکی انخلا سے قبل ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود نے اپنے گروپ کی جانب سے طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے بیعت کی تجدید کی۔

اس نے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے قریبی نظریاتی وابستگی، نسلی اور میدان جنگ میں ساتھ دینے کے علاوہ ضم شدہ اضلاع میں عسکریت پسندوں کو دوبارہ ابھرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کی حمایت واپس لینے، اسے افغان سرزمین سے بے دخل کرنے یا اسے غیر مسلح کرنے کے پاکستانی مطالبات کو مسترد کر دیا۔

بیعت کے ذریعے ٹی ٹی پی کے لیے طالبان کے حمایتی نظام نے کئی دیگر عوامل کے علاوہ، ٹی ٹی پی کو ضم شدہ اضلاع میں اپنے عسکری انداز میں جارحانہ کر دیا۔

 نئے ضم شدہ اضلاع میں شدت پسند گروپوں کے درمیان سب سے زیادہ اعلیٰ سطح کا تعاون آپس میں انضمام ہے۔

عسکریت پسند گروپوں کے درمیان انضمام کا اعلان پلیٹ فارمز سے وفاداریوں کے حلف کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس کا حوالہ ’کسی رہنما کے ماتحت گروپ میں شامل ہونے پر اس کی وفاداری اور غیر مشروط اطاعت کا اعلان کیا جاتا ہے۔‘

پچھلے چار سالوں سے ٹی ٹی پی اپنے مختلف دھڑوں کو دوبارہ اکھٹا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود نے ضابطہ اخلاق کے ذریعے سخت تنظیمی نظم و ضبط برقرار رکھا ہے اور دوسرے ہم خیال عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ رابطے قائم کیے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ناصرف ٹی ٹی پی نے اپنے الگ ہونے والے دھڑوں کو دوبارہ اپنی طرف کھینچ لیا بلکہ حافظ گل بہادر گروپ اور لشکر اسلام کے ساتھ ممکنہ انضمام کے حوالے سے بات چیت بھی کر رہا ہے۔

اسی طرح مقامیت پر زیادہ فوقیت طالبان کی فتح کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ٹی ٹی پی کا سخت اہداف کو نشانہ بنانے اور نرم اہداف سے بچنے کی حکمت عملی بھی افغان طالبان سے سیکھا ہوا سبق ہے۔

اسی طرح ٹی ٹی پی کے نیٹ ورک کے منتشر پھیلاؤ کے باوجود، درجہ بندی کے ڈھانچے کی تشکیل نو، طالبان کے تنظیمی ڈھانچے کی تقلید ہے۔

خلاصہ یہ کہ موجودہ منظر نامہ اس کے سابقہ ​​حیثیت سے مختلف ہے اور پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے ایک طویل مدتی خطرہ ہے جسے عسکریت پسند گروہوں کے بین تنظیمی تعاون کے ذریعے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ آپریشنل ڈومین میں بھی قریب آگئے ہیں۔2007 میں ٹی ٹی پی کے قیام کے وقت حافظ گل بہادر نے ٹی ٹی پی کو چھوڑ دیا تھا اور اس کے نائب سربراہ کے طور پر مختصر مدت تک اس کا حصہ رہے۔

حافظ گل بہادر گروپ کی توجہ افغانستان میں طالبان کی مدد پر مرکوز تھی اور وہ پاکستان میں پرتشدد حملوں کا مخالف تھا۔

انہوں نے 2007 میں پاکستان فوج کے ساتھ امن معاہدہ کیا جو شمالی وزیرستان میں 2015 میں آپریشن ضرب عضب تک جاری رہا۔

شمالی وزیرستان سے نکالے جانے کے بعد حافظ گل بہادر گروپ افغانستان چلا گیا لیکن اس نے اپنی توجہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف لڑنے پر مرکوز رکھی۔

امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد اس نے اب اپنی توجہ پاکستان میں طالبان جیسی شرعی ریاست کے لیے نئے ضم شدہ اضلاع میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں سے لڑنے پر مرکوز کر دی ہے۔

حالیہ برسوں میں ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ نے خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع اور ملحقہ علاقوں میں 12 مشترکہ حملے کیے۔

ایک جیسے نظریاتی اہداف، ایک ہی ’ہوم بیس‘ ایک مشترکہ دشمن اور طالبان کی سرپرستی نے دونوں گروپوں کے درمیان لاجسٹک اور آپریشنل تعاون کو مزید مضبوط کیا۔

ظاہر ہے نئے ضم شدہ اضلاع میں شدت پسند گروہ حکمت عملی اور آپریشنل حکمت عملی کے لحاظ سے مضبوط اور ہوشیار ہو گئے ہیں۔

اس کی وجہ سے وہ اپنے پچھلی غلطیوں کو دہرانے سے اجتناب کریں گے جو طالبان کو کہیں زیادہ خطرناک بنا دے گا۔

افغانستان میں پاکستان طالبان کے لیے قابل اجازت ماحول کی دستیابی وہ پہلو ہے جو پاکستان کی داخلی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے اتحاد کو برقرار رکھے گی۔

پاکستانی پالیسی سازوں کو ضم شدہ اضلاع میں عسکریت پسند گروپوں کو کمزور کرنے کے لیے ان اتحادوں کو توڑنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ انہیں شدت پسندوں کے خلاف نئی حکمت عملی وضع کرنے سے پہلے وہاں موجود منظرنامے کو سمجھنا ہوگا۔

چونکہ قومی ریاستوں کو ان کے غیر متناسب مخالفوں کے خلاف فیصلہ کن سٹریٹجک فائدہ فراہم کرنے میں فوجی ذرائع کی افادیت میں کمی آئی ہے تو ایسے میں ضم شدہ اضلاع میں عسکریت پسندی کی لہر کو روکنے کے لیے غیر متحرک ذرائع سے سرمایہ کاری انتہائی اہم ہے۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @basitresearcher.

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ