جمہوری دور میں سوشل میڈیا پر پابندی کی باتیں حیران کن ہیں: ماہرین

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے سوشل میڈیا کے متعلق نئے قوانین بنانے والے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے مبصرین نے اسے آزادی اظہار رائے پر قدغن قرار دیا ہے۔

پاکستان میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی سروس گذشتہ کئی ہفتوں سے بند ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے حال ہی میں سوشل میڈیا سے متعلق نئے قوانین بنانے والے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے مبصرین نے ایسی کوشش کو اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی انسانی حق پر قدغن قرار دیا ہے۔

سیاسی مبصر اور وفاقی جامعہ اردو کراچی کے شعبہ صحافت کے طویل عرصے تک سربراہ رہنے والے ڈاکٹر توصیف احمد نے وزیر داخلہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا بیان ملک میں اظہار آزادی کے خلاف ہے۔

’یہ بیان کہ سوشل میڈیا پر نیا قانون بنایا جائے گا اس بات کی نشانی ہے کہ اب پاکستان میں سوشل میڈیا پر پابندی عائد کی جائے گی۔ یہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی جو ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔‘

حال ہی میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’ہمیں آن لائن اظہارِ رائے کے حوالے سے نئے قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسے قوانین اظہار رائے کی آزادی کے خلاف نہیں؟ تو محسن نقوی نے کہا: ’اظہار رائے کی آزادی ٹھیک ہے، مگر کسی پر جھوٹا الزام لگانا بھی غلط بات ہے، اس لیے اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

’میں اس بات کا قائل ہوں کہ سوشل میڈیا کے استعمال پر نئے قوانین بننے چاہیے۔ دنیا بھر میں اس طرح کے قوانین موجود ہیں۔ حال ہیں میں امریکہ میں مختلف الزامات کے تحت ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی گئی۔‘

پاکستان میں عام انتخابات میں پولنگ کے روز (آٹھ فروری کو) انٹرنیٹ پر پندش کے علاوہ ملک میں سوشل میڈیا کے اہم پلیٹ فارم ایکس پر 17 فروری سے غیر اعلانیہ پابندی ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد نے کہا کہ سوشل میڈیا پر غلط بیانیہ پیدا کرنے یا کسی پر جھوٹا الزم لگانے پر پاکستان میں پہلے سے قوانین موجود ہیں اور ماضی میں ایسا کرنے پر سوشل میڈیا صارفین پر کیسز بھی بن چکے ہیں۔ ایسے میں نئے قوانین لانے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟

سیاسی تجزیہ نگار اور اینکر پرسن فیاض نائچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان میں آزادی اظہار رائے کو سلب کرنے کی غرض سے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’پاکستان میں پہلے سے اظہار پر غیر اعلانیہ پابندی لگی ہوئی ہے۔ جس کو اب باضابطہ کیا جا رہا ہے۔ سیلولر کمپنیوں کے نیٹ ورکس کی رفتار کم کر رکھی ہوئی ہے تاکہ انٹرنیٹ صحیح طریقے سے نہ چل سکے۔ فون کی رنگ ٹون پر صارف کی مرضی کے بغیر ریاست کی جانب سے خودکار دھمکی آویز ٹون رکھا ہوا ہے، جس میں کہا جاتا ہے کہ سکیورٹی اداروں کے متعلق سوشل میڈیا پر پروپینگڈہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیاض نائچ کے مطابق ملائشیا ہو یا انڈیا ہو یا امریکہ وہاں ریاست کو سوشل میڈیا سے کوئی خطرہ نہیں مگر پاکستان میں ہمیشہ خطرہ لگا رہتا ہے۔ غیر جمہوری قوتیں جو اس ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہیں نہیں چاہتیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو۔

’نو مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے آن لائن جلسوں یا فنڈ ریزنگ کی آن لائن مہمات کے دوران انٹرنیٹ کی بندش اور اب ایکس پر کئی ہفتوں سے پابندی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ملک میں پہلے سے اظہار آزادی پر پابندی عائد ہے۔‘

فیاض نائچ نے بتایا کہ ایک مخصوص ڈاکٹرائن کے تحت لوگوں کی ذہن سازی کی جا رہی ہے اور جو اس عمل میں نہیں آتے ان کے راستے روکے جاتے ہیں۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے سوشل میڈیا پر ممکنہ پابندی کو رد کرتے ہوئے فوری طور پر ایکس کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے کچھ عرصہ قبل سینیٹ میں ایکس سے متعلق پیش کی گئی قرارداد کا بھی حوالہ دیا اور ایسی کوششوں کو ناقابلِ عمل لغو قرار دیا۔

اسد اقبال بٹ کے مطابق: ’سوشل میڈیا نے شہریوں کو معلومات کے علاوہ روزگار اور حقوق اور آزادی کے لیے آواز اٹھانا سکھلایا اور جمہوری دور میں سوشل میڈیا جیسے ٹولز پر پابندی کی باتیں حیران کن ہیں۔‘

 

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان