گلگت بلتستان کے علاقے سلطان آباد میں 20 جنوری کو ’13 سالہ‘ بچی فلک نور ایک مقامی ’عبات گاہ‘ سے ’غائب‘ ہو جاتی ہے۔ عزیز رشتہ داروں سے پتہ کرنے پر بچی کا سراغ نہیں ملتا اور پریشان حال باپ اگلی صبح تھانہ دنیور میں اغوا کا مقدمہ درج کرواتا ہے، جس میں فرید نامی پڑوسی اور دوسرے سہولت کاروں کو نامزد کیا جاتا ہے۔
فلک نور کیس سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے، جب کہ گذشتہ روز اس حوالے سے اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کیے گئے۔
بچی کے والد سخی احمد جان نے پولیس کو دیے گئے بیان میں بتایا کہ ملزم فرید نے ’اس کے والد اور دیگر ساتھیوں کی مدد سے بچی کو اغوا کیا۔‘
ویڈیوز
واقع کے دو ماہ بعد 20 مارچ کو فلک نور کا ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر دیکھا جاتا ہے، جس میں بچی بتا رہی ہے کہ وہ 16 سال کی ہیں اور انہیں اغوا نہیں کیا گیا بلکہ انہوں نے اپنی مرضی سے فرید سے شادی کی ہے۔
گلگت بلتستان پولیس کے ایس ایس پی محمد آیاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کیس میں پولیس کی پہلی ترجیح فلک نور اور ملزم فرید کی باحفاظت بازیابی ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دونوں بچے ہیں اس لیے ان کے لیے بچی کے علاوہ ملزم کی سیفٹی بھی اہم ہے۔
ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد فلک نور اور فرید نے ایبٹ آباد میں پشاور ہائی کورٹ کے سامنے اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا دیا تھا، جس میں انہوں نے پسند کی شادی کا اقرار کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس ابھی ملزمان کو گرفتار اس لیے نہیں کر رہی ہے کیونکہ مرکزی ملزم فرید نے چھ اپریل تک پشاور ہائی کورٹ سے ضمانت لے رکھی ہے۔
اسی طرح گلگت کی عدالت نے پولیس کی جانب سے لڑکی کو دو اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ مقدمے میں ملزم کے سہولت کار امتیاز نے نو اپریل تک گلگت کی مقامی عدالت سے ضمانت لی ہوئی ہے۔
فلک نور کی عمر
فلک نور نے سوشل میڈیا پر ویڈیو میں بتایا ہے کہ وہ 16 سال کی ہیں لیکن نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) کے جاری کردہ فارم ب میں وہ تقریباً 13 سال کی ہیں۔
اسی طرح گلگت بلتستان کے ایک سرکاری اہلکار، جو اس کیس کو فالو کر رہے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچی کی عمر سکول ریکارڈ کے مطابق بھی 13 سال کے لگ بھگ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ایک سادہ کم عمری کی شادی کا کیس ہے لیکن بعض عناصر کی جانب سے اس کو فرقہ ورانہ رنگ دیا جا رہا ہے۔
گذشتہ روز اسلام آباد میں گلگت کے مشیر داخلہ شمس لون، اور گلگت حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اس کیس کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کی بھی مذمت کی ہے۔
کم عمری کی شادی اور نکاح
پاکستان کے 1929 کے ’چائلڈ میریجیز ریسٹرین ایکٹ‘ کے مطابق کم عمری کی شادی قابل سزا جرم ہے اور اس قانون کے مطابق لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر 16 سال جبکہ لڑکے کے لیے 18 سال مقرر ہے۔
تاہم مختلف صوبوں کی جانب سے اس ایکٹ میں ترمیم کر کے اس عمر کو بعض صوبوں نے 18 سال کر دیا ہوا ہے جس میں خیبر پختونخو اور سندھ شامل ہیں۔
فلک نور کیس اس حوالے سے غیر معمولی ہے کہ اس میں لڑکا اور لڑکی دونوں کم عمر ہیں (پولیس ریکارڈ کے مطابق فرید 17 سال کا ہے)۔
قانونی ماہرین کی رائے
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل افتخار صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ولی کے بغیر نکاح نہ ہونے کے حوالے سے ایک عدالتی فیصلہ تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہوا ہے۔
افتخار صدیقی نے بتایا، ’کم عمری کی شادی کے حوالے سے قانون نکاح کی اجازت تو دیتا ہے لیکن رخصتی نہیں ہو سکتی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم افتخار صدیقی کے مطابق اگر کم عمر لڑکی نے اپنی مرضی سے نکاح کیا اور چلی گئی، تو تب بھی نکاح غیر قانونی نہیں ہو سکتا اور اس میں زنا یا اغوا کا مقدمہ بھی درج نہیں ہو سکتا۔
کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے پاکستانی قانون چائلڈ ریسٹرین ایکٹ 1929 میں بنا ایک قانون ہے، اور اس قانون میں بھی کم عمری کی نکاح یا شادی کرنے پر کم عمر جوڑے کو سزا یا نکاح غیر قانونی قرار دینے کا کوئی شق موجود نہیں ہے۔
اس قانون کے تحت صرف کم عمری کی شادیاں کرانے والے والدین اور نکاح پڑھانے والوں کے لیے قید اور جرمانے کی سزائیں موجود ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل سجید آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسلامی قوانین کے مطابق بالغ لڑکا اور لڑکی نکاح کر سکتےہیں لیکن پاکستانی قوانین کے مطابق کم عمری کی شادی کو ‘ارریگولر’ نکاح کہلایا جائے گا۔
سجید آفریدی نے بتایا، ’حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ میں لکھا گیا ہے کہ قانونی عمر کو پہنچنے تک کوئی بھی شادی ارریگولر ہوگی یعنی ملکی قوانین اور رواج کے منافی ہو گی لیکن اس میں زنا کا مقدمہ درج نہیں ہو سکتا۔‘
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل بھی یہی رائے رکھتے ہیں کہ شرعی قانون کے مطابق تو کم عمری میں نکاح درست ہے لیکن اس کے لیے ولی یعنی بالغ باپ، والدہ یا بھائی، بہن ہونا دوران نکاح ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا، ‘اگر لڑکا لڑکی قانونی عمر یعنی 18 سے اوپر ہے، تو وہ اپنی مرضی سے نکاح کر سکتا ہے اور شرعی و پاکستانی قانون میں اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔’
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔