لاہور سی بی ڈی منصوبے سے 2000 ارب سالانہ آمدن ہو گی: سی ای او

عمران امین  نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت کے مطابق آٹھ سو ایکڑ رقبے پر آئی ٹی ڈسٹرکٹ الگ سے بنانے کی تیاری مکمل ہے۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بننے والے پہلے سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ (سی بی ڈی) کے چیف ایگزیکٹو افیسر عمران امین نے منصوبے کو خوشحالی کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’لاہور میں والٹن ایئر پورٹ کی قیمتی زمین پر بننے والے اس منصوبے سے دو ہزار ارب روپے سالانہ آمدن ہوگی۔ لاکھوں افراد کے لیے روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اس منصوبے کو بہت پہلے شروع ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ پوری دنیا میں اس طرح کے منصوبوں سے ہی حکومتی آمدن اور ترقی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔‘

عمران امین، جو کہ سعودیہ اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں بھی کئی پروجیکٹ اپنی نگرانی میں مکمل کرا چکے ہیں،انہوں نے سی بی ڈی منصوبے کو بھی گیم چینجر منصوبہ قرار دیا۔

ان کے بقول، ’یہ منصوبہ چھ سو ارب روپے میں مکمل ہوگا جس پر حکومت کا کوئی بجٹ خرچ نہیں ہوگا بلکہ یہاں کمرشل بنیادوں پر خود کمائی کر کے خرچ کیا جارہا ہے۔ یہاں بزنس ٹاورز، رہائشی فیلٹس، سپورٹس سٹی، آئی ٹی ٹاورز، پارک اور شاپنگ مال بنائے جارہے ہیں۔ ٹوٹل ایک سو دس کمرشل پلاٹس میں سے صرف دس پلاٹ ساٹھ ارب کے فروخت کیے گئے ہیں۔‘

عمران امین نے کہا کہ ’سی بی ڈی کا کل رقبہ سینکڑوں ایکڑ ہے جو کلمہ چوک سے شروع ہو کر والٹن روڑ تک پھیلا ہوا ہے۔ حکومت پنجاب اور سول ایوی ایشن نے یہ رقبہ سی بی ڈی کو فراہم کیا جہاں کام جاری ہے۔

’یہ پورا رقبہ کسی کو فروخت نہیں کیا گیا۔ پروپیگنڈہ کرنے والوں کو ملکی ترقی پر تنقید سے باز رہنا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہاں ڈپلومیٹک انکلیو بنایا جارہا ہے، جہاں مختلف ممالک کے قونصلیٹ بنائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ تین ہزار تک سرکاری دفاتر ہیں جو تمام یہیں ٹاورز میں منتقل ہوجائیں گے۔ لہذا سرکاری محکموں میں رابطہ بھی آسان ہوگا۔‘

عمران امین  نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت کے مطابق آٹھ سو ایکڑ رقبے پر آئی ٹی ڈسٹرکٹ الگ سے بنانے کی تیاری مکمل ہے۔ یہ جدید ترین آئی ٹی مرکز الگ سے بنایا جائے گا جہاں سیکنڑوں غیر ملکی کمپنیوں کو بھی مواقع فراہم کر کے لاکھوں نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا پلان بنایا ہوا ہے۔

عمران امین کے بقول، پوری دنیا میں ٹیکس وصولیوں کے علاوہ اس طرح کے منصوبوں سے حکومتوں کی آمدن ہوتی ہے جس سے ملکی ترقی بھی یقینی بنتی ہے۔ لیکن ہم کافی تاخیر سے اس طرف منتقل ہو رہے ہیں مگر اب یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ایک ایک پلاٹ شفاف طریقے سے پچاس کروڑ سے زائد قیمت میں فروخت کیے جارہے ہیں۔

’اس قیمتی جگہ کو سی بی ڈی نے جدید کمرشل سینٹر بنانے کے لیے مکمل حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔

’یہ ایسا کمرشل منصوبہ ہے جہاں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوسکتی اور حکومت بھی اس میں مکمل سپورٹ کر رہی ہے کیونکہ اب ترقی اور غربت ختم کرنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی بڑا اور جلد منصوبہ نہیں ہوسکتا۔‘

سی بی ڈی منصوبہ ہے کیا؟

گذشتہ دور حکومت میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ لاہور کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بلند عمارتیں تعمیر کی جائیں گی۔

لہذا والٹن ایئر پورٹ کی جگہ سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کو کمرشل قرار دے کر تیزی سے کام شروع کر دیا گیا۔ اس کے لیے سی بی ڈی کے نام سے اتھارٹی بھی قائم کر دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سی بی ڈی حکام کے مطابق اس منصوبے میں اب تک تقریباً 56 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے جبکہ دو سالوں میں یہ بڑھ کر دو کھرب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر 25 ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے آٹھ منزلہ پلازہ کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بزنس زون کی طرف جانے والی تمام سڑکوں پر ٹریفک کا بوجھ کم کرنے کے لیے کلمہ چوک انڈر پاس پر بھی کام شروع کر دیا گیا ہے جس پر 4.2 ارب روپے لاگت آئے گی۔ این ایل سی کو اس منصوبے کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔

سی بی ڈی کے حکام کے مطابق تمام شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بابِ پاکستان کے اطراف ایک پارک بھی تعمیر کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں سی بی بزنس زون میں جدید کاروباری دفاتر، ہوٹل، ریسٹورنٹس اور برانڈڈ مصنوعات کی دکانیں بھی ہوں گی۔ کاروباری مرکز میں پارکنگ، آئی ٹی، جدید ہسپتال، مساجد اور ضروریات زندگی کی تمام سہولیات بھی دستیاب ہوں گی۔

والٹن ایئر پورٹ کی جگہ سی بی ڈی

سی بی ڈی منصوبہ لاہور کی سب سے قیمتی جگہ کلمہ چوک سے متصل والٹن ایئر پورٹ پر بنایا جا رہا ہے۔

والٹن ایئر پورٹ سو سال پہلے یعنی قیام پاکستان سے قبل بنایا گیا تھا۔ سول ایوی ایشن ریکارڈ کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان بننے کے بعد جب پہلی بار سرزمین پاکستان پر آئے تو ان کی فلائٹ لاہور میں والٹن ایئر پورٹ پر لینڈ کی تھی۔ جہاں لوگوں نے بڑی تعداد میں ان کا استقبال کیا تھا۔

باب پاکستان بھی اسی جگہ کے قریب تعمیر کیا جارہا ہے جہاں تقسیم ہند کے وقت پاکستان آنے والے مہاجروں کا پہلا کیمپ بنایا گیا تھا۔

دوسری جنگ عظیم اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی 1965 اور 1971 کی جنگ کے دوران بھی پاکستانی جنگی جہازوں کے لیے یہی ایئر پورٹ استعمال کیا گیا تھا۔

سول ایوی ایشن کی ایک سکیم کے تحت لوگوں کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ تربیت حاصل کر کے بطور پائلٹ ایئر لائنز میں شمولیت اختیار کریں۔ اس سکیم کے تحت 31 پائلٹس کو تربیت دی گئی۔

1953 میں والٹن ایئرپورٹ پر چارٹرڈ پروازوں کا آغاز کیا گیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد اورینٹ ایئرویز اور پھر پی آئی اے دونوں نے والٹن کے فضائی اڈے کا استعمال جاری رکھا۔

اس وقت تک پی آئی اے کے زیرِاستعمال طیارے بآسانی اس ہوائی اڈے کے رن وے پر اتر سکتے تھے لیکن جب پی آئی اے نے بڑے طیارے خصوصاً بوئنگ 702 خریدے تو اس کے لیے اس ہوائی اڈے کا رن وے چھوٹا پڑنے لگا۔

حکومت نے لاہور انٹرنیشنل ایئرپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا جو اب جگہ کی کمی کے باعث علامہ اقبال ایئرپورٹ انٹرنیشنل ائیرپورٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔

1962 میں لاہور کے نئے ایئرپورٹ کے قیام کے بعد تمام ایئرلائنز کے فضائی آپریشنز کو والٹن سے لاہور انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر منتقل کر دیا گیا اور والٹن ایئرپورٹ جنرل ایوی ایشن کے لیے مخصوص ہوائی اڈے میں تبدیل کر دیا گیا۔

اس کے بعد یہاں لاہور فلائنگ کلب کے تحت جہاز اڑانے کی تربیت دی جاتی رہی۔ سی بی ڈی کے تعمیراتی کام کے باوجود ابھی تک تربیت میں استعمال ہونے والے پرانے چھوٹے جہاز اب بھی یہیں موجود ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت