استاد کہتے تھے طبلے کی سمجھ تب آئی جب ٹانگیں قبر میں ہیں: ملتانی طبلہ نواز

شانی خان کے مطابق ’میرے دادا استاد بابا معشوقے خان صاحب کہتے تھے کہ موہن لال طبلے کی سمجھ مجھے تب آئی ہے جب میری ٹانگیں قبر میں ہیں، یہ علم بہت وسیع ہے۔‘

طبلہ سازی کے فن سے وابستہ ملتان کے شانی خان  خود کو میراثی کہنے پر بُرا نہیں مناتے بلکہ خوش ہوتے ہیں۔

شانی خان نے بتایا کہ میراث اس کو ملتی ہے جسے مالک عطا کرے ہر کسی کو میراث ورثے میں نہیں ملتی۔  

’ہمار ے پیشے میں سب سے پہلے ادب آداب سکھائے جاتے ہیں، اٹھنے بیٹھنے اور بولنے چالنے کی تمیز کیا ہے، تو یہ بہت فرق پڑ جاتا ہے۔

’میرے والد صاحب اکثر ایک بات بولتے ہوتے ہیں کہ موسیقی سے وابستہ انسان دل کا بہت نرم ہوتا ہے ۔

’طبلے کے بغیر موسیقی ادھوری ہے اگر ردھم نہیں ہوگا تو موسیقی بے معنی سی ہو جاتی ہے۔ 

’تیاری کے لحاظ سے ایک طبلہ بناتے ہوئے تقریباً تین دن کا وقت لگتا ہے، پہلے ہم کھال کو لیتے ہیں، کھال کو تین دن کیمیکل میں ڈبو کے رکھتے ہیں، ڈبونے کے بعد پھر اس کھال کو بالکل فنش کیا جاتا ہے، فنش کرنے کے بعد پھر وہ کھال ڈرائی ہوتی ہے، ڈرائی ہونے کے بعد اس کو پھر ایک دفعہ فنش کیا جاتا ہے پھر اس کے بعد اس کا سائز کاٹا جاتا ہے، یہ پوڑا بنا ہوا ہے، پھر اس کی سطح بنائی جاتی ہے جسے ’گجرے کی گدائی‘ کہتے ہیں۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’گدائی کرنے کے بعد پھر ہمیں تقریباً دو دن اس کو سکھانا پڑتا ہے۔ دھوپ میں دو دن سکھانے کے بعد پھر مرحلہ شروع ہوتا ہے اس کے اندرسیاہی کا، تو یہ اندر سیاہی ہے، یہ تقریباً ہمارا چار سے پانچ گھنٹے میں کام مکمل ہوتا ہے اور مزید پھر اس کے بعد اس کو جس کھرج (سکیل) کے اوپر ہم نے سیٹ کرنا ہے، اس حساب سے سیاہی کا وزن رکھتے ہیں۔

’جب تک حرم گیٹ  آباد تھا اس کام کی طرف لوگوں کا بہت رجحان تھا۔ ’میرے دادا استاد بابا معشوقے خان صاحب وہ اکثر میرے استاد جی کے ساتھ بات کرتے تھے تو کہتے تھے کہ موہن لال طبلے کی سمجھ مجھے تب آئی ہے جب میری ٹانگیں قبر میں ہیں، یہ علم بہت وسیع ہے۔‘ یہ بزرگی کے عالم میں سمجھ آنا شروع ہوتا ہے اور اس کی سکھائی بچپن سے ہی ہوتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا