امریکہ کی متعدد یونیورسٹیوں میں فلسطینی طلبہ کے حق میں مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے، جہاں کلاسیں منسوخ کر دی گئی ہیں اور مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی میں گذشتہ ہفتے مظاہرین کے ایک بڑے گروپ نے تعلیمی ادارے کے میدانوں میں ’غزہ یکجہتی کیمپ‘ قائم کیا تھا، جو ییل اور ایم آئی ٹی سمیت دیگر کیمپسوں میں پھیل گیا ہے۔
کولمبیا کے کچھ یہودی طالب علموں نے کئی دنوں سے جاری احتجاج کے دوران دھمکیوں اور یہود دشمنی کی اطلاع دی ہے۔ اس احتجاج میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ نیویارک کے معروف ادارے کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والی کمپنیوں سے الگ کیا جائے۔
پیر کو یہاں کلاسز آن لائن منتقل کر دی گئیں جبکہ یونیورسٹی کی صدر نعمت شفیق نے سکول کمیونٹی کے نام ایک کھلے خط میں ’ریسیٹ‘ کا کہا۔
انہوں نے کہا: ’گذشتہ دنوں میں، ہمارے کیمپس میں ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے والے رویے کے بہت سے واقعات ہوئے۔ یہود مخالف زبان کسی بھی دوسری زبان کی طرح جو لوگوں کو تکلیف پہنچانے اور ڈرانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے ناقابل قبول ہے اور مناسب کارروائی کی جائے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’حالات معمول پر لانے اور ہم سب کو اگلے اقدامات پر غور کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے، میں اعلان کر رہی ہوں کہ تمام کلاسیں پیر کو آن لائن ہوں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ہفتے یونیورسٹی انتظامیہ نے جمعرات کو نجی کیمپس میں پولیس طلب کی تھی، جس کے بعد 100 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ بظاہر اس اقدام سے کشیدگی میں اضافہ ہوا اور ہفتے کے آخر میں مزید لوگ باہر آگئے۔
گرفتار کی گئی سوشل ورکر طالبہ میمی الیاس نے پیر کو اے ایف پی کو بتایا: ’ہم اس وقت تک یہیں رہیں گے جب تک وہ ہم سے بات نہیں کرتے اور ہمارے مطالبات نہیں سنتے۔ ہم یہود دشمنی یا اسلاموفوبیا نہیں چاہتے۔ ہم یہاں سب کی آزادی کے لیے ہیں۔‘
کولمبیا میں کلاسکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جوزف ہولے کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی نے پولیس کو شامل کرکے ’غلط حربہ‘ استعمال کیا ہے، جس نے ’زیادہ شدت پسند عناصر کو اپنی طرف راغب کیا ہے جو ہمارے طلبہ کے احتجاج کا حصہ نہیں ہیں۔‘
ہاؤلے نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’صرف نظم و ضبط اور سزا سے آپ تعصب اور کمیونٹی کے اختلافات دور نہیں کر سکتے۔‘
پیر کی رات تعطیلات شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فلسطین کے حامی یہودی طلبہ کولمبیا سمیت متعدد کیمپسوں میں احتجاجی جگہوں پر روایتی کھانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ نیویارک یونیورسٹی کی جانب سے طلبہ کے رویے کو ’خلل انگیز، اور مخالفانہ‘ قرار دیے جانے کے بعد پولیس نے رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ان مظاہرین کو حراست میں لینا شروع کر دیا جنہوں نے نیویارک یونیورسٹی میں اپنا کیمپ لگا رکھا تھا۔
ایم آئی ٹی، یونیورسٹی آف مشی گن اور ییل میں بھی مظاہرے ہوئے جہاں منتشر ہونے کی درخواستوں کو مسترد کرنے پر پیر کو کم از کم 47 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
آئیوی لیگ یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا کہ ’یونیورسٹی نے پوری ییل کمیونٹی کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان افراد کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو پلازہ سے باہر نہیں جائیں گے۔‘
فلسطینی یکجہتی کمیٹی کے طلبہ نے پیر کو انسٹاگرام پر کہا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے حکام نے کمیٹی معطل کر دی ہے۔
اخبار ہارورڈ کرمسن نے گروپ کو بھیجی گئی ایک ای میل کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی ہے کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ باقی مدت کے لیے ’تمام تنظیمی سرگرمیاں بند کردیں‘ یا گذشتہ ہفتے ایک غیر رجسٹرڈ مظاہرے کے بعد مستقل طور پر بے دخلی کا خطرہ مول لیں۔
حماس کے سات اکتوبر کے اسرائیل پر حملے اور اس کے بعد سے غزہ پر جاری اسرائیل جارحیت کے بعد سے امریکہ میں یونیورسٹیاں شدید ثقافتی بحث کا مرکز بن گئی ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو کہا تھا کہ وہ ’یہود مخالف مظاہروں‘ کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید تفصیلات کے بغیر نامہ نگاروں کو بتایا: ’میں ان لوگوں کی بھی مذمت کرتا ہوں جو یہ نہیں سمجھتے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘