غزہ میں فلسطینیوں کی آواز بننے والے صحافی 100 بااثر شخصیات میں شامل

غزہ پر سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد 108 دن تک غزہ میں فلسطینیوں کی آنکھیں اور کان بننے کی ذمہ داری ادا کرنے والے فلسطینی صحافی معتز عزیزہ کا نام ’ٹائم میگزین‘ کی 100 بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔

غزہ پر سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد 108 دن تک غزہ میں فلسطینیوں کی آنکھیں اور کان بننے کی ذمہ داری ادا کرنے والے فلسطینی صحافی معتز عزیزہ کا نام ’ٹائم میگزین‘ کی 100 بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔

امریکی جریدے ٹائم میگزین کی جانب سے ہر سال دنیا بھر کے مختلف شعبوں سے منسلک افراد کو ان کی نمایاں خدمات کے بدولت اپنی بااثر افراد کی فہرست میں شامل کرتا ہے، جن میں سیاسی، سماجی، شوبز اور سپورٹس کی شخصیات بھی شامل ہوتی ہیں۔

امریکی جریدے نے سال 2024 کے لیے بااثر شخصیات کی فہرست میں معتز عزیزہ کا تعارف ان الفاظ میں کروایا ’پریس کی جیکٹ پہنے، ہاتھ میں کیمرا تھامے 25 سالہ فلسطینی فوٹوگرافر نے اسرائیلی بمباری میں تقریباً چار ماہ گزارے۔‘

مزید بتایا گیا کہ ’انہوں نے اس دوران بے گھر ہونے والے خاندان، اپنے پیاروں کا سوگ مناتی خواتین اور ملبے میں پھنسے شہریوں کا درد دنیا بھر کو دکھایا۔‘

معتز عزیزہ نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ ایکس پر ٹائم میگزین کی خبر شئیر کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور لکھا کہ ’فلسطینی فوٹوگرافر‘، میں خوش قسمت ہوں کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں یا جو کچھ بھی حاصل کرتا ہوں اپنے ساتھ اپنے ملک کا نام لے کر جاتا ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ان لوگوں کے لیے جو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم نہیں کرتے، یا ان کے لیے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ان کی سرزمین ہے۔ فلسطین ایک دن غاصبوں سے آزاد ہو کر رہے گا۔ ہر کوئی اپنے حصے کا کام کر رہا ہے، اور میرا حصہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔‘

11 اکتوبر 2023 کو دیر البلاح کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملے میں عزیزہ نے اپنے خاندان کے کم سے کم 15 افراد کو کھو دیا۔

فروری میں دی گارڈین کو انٹرویو میں انہوں نے اس درد ناک واقع کے بارے میں بار کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں قریب میں ہی ہونے والے بم دھماکے کی رپورٹ کرنے کے لیے پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس میں میری آنٹی کے گھر کو نشانہ بنایا گیا ہے، میں نے ان کی لاشیں سڑکوں پر بکھری ہوئی دیکھیں اور پورا ایک دن ان کے جسم کے اعضا اکٹھا کرنے میں گزارا۔‘

گذشتہ سال جی کیو مڈل ایسٹ نے عزیزہ کو ان کی ہمت اور بہادری کے اعتراف میں سال 2023 کا ’مین آف دی ایئر‘ قرار دیا تھا جب کہ فلسطینی فوٹوگرافر کی اسرائیلی فضائی حملے سے ملبے میں پھنسی بچی کی بنائی گئی تصویر کو بھی ٹائم کی 2023 کی ٹاپ 10 تصاویر میں شامل کیا گیا تھا۔

سات اکتوبر سے غزہ میں شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے بعد سے جس طرح معتز عزیزہ نے دنیا کو اپنی تصاویر کے ذریعے غزہ پر ہونے والے حملوں سے آگاہ کیا، انہوں نے ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی فالوورز کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کیا۔

الجزیرہ کے سوشل میڈیا تجزیات کے ایک جائزے کے مطابق، سات اکتوبر کے بعد سے 100 دنوں میں ان کے انسٹاگرام فالوورز کی تعداد 27 ہزار 500 سے بڑھ کر 18.25 ملین ہو گئی ہے۔

جب کہ فیس بک اکاؤنٹ پر 50 ہزار فالوورز اور ایکس پر یہ تعداد ایک ملین تک پہنچ چکی ہے۔

اپنی سوشل میڈیا پوسٹس کے ساتھ ساتھ، عزیزہ نے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNWRA) کے لیے بھی کام کیا ہے۔

معتز عزیزہ نے اسرائیل کے زیر قبضہ غزہ کی پٹی کے دیر البلاح کیمپ میں پرورش پائی، جبکہ الازہر یونیورسٹی سے 2021 میں انگلش اینڈ لیٹریچر میں گریجویشن کی ڈگری مکمل کی۔

جس دن معتزز عزیزہ نے غزہ سے انخلا کی ویڈیو شئیر کی، انہیں صارفین کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا گیا اور اتنے عرصے تک جنگ زدہ علاقے سے رپورٹنگ کرنے پر سراہا گیا۔

ایک صارف نے ان کی انسٹا پوسٹ پر لکھا کہ ’ہم آپ کے بہت مشکور ہیں! آپ نے دنیا کو ایک بدصورت سچ دکھایا ہے،  ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے لوگ آزاد اور محفوظ رہیں۔‘

جنوری میں غزہ سے انخلا کے بعد سے، فلسطینی صحافی غزہ میں بحران کے بارے میں شعور بیدار کرنا اور عالمی  مداخلت کے مطالبے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

اسرائیل کی سات اکبوتر سے جاری غزہ پر جارحیت سے پہلے عزیزہ کی آن لائن پوسٹس زیادہ تر اپنے آبائی علاقے غزہ میں روزمرہ کی زندگی کی تصویر کشی پر مرکوز تھیں۔

انہوں نے دی گارڈین کو بتایا کہ وہ جنگی صحافی بننے کا ارادہ نہیں رکھتے اور خواہش کرتے ہیں کہ لوگ مجھے میرے فن کے لیے جانیں اور وہ دنیا کو اپنے لوگوں کی خوبصورتی دکھانا چاہتے تھے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ میں غزہ میں عام شہریوں کے ساتھ صحافیوں کو لاحق خطرات کے بارے میں بھی خبردار کیا گیا ہے، رپورٹ میں 17 اپریل 2024 تک کے حاصل ڈیٹا کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم سے کم 95 صحافیوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

جسے 1992 سے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی کمیٹی سی جے پی نے مہلک ترین دور قرار دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل