ویسٹ انڈیز کی ویمن ٹیم نے تینوں ایک روزہ میچوں میں پاکستان ویمن ٹیم کو جس آسانی اور بغیر کسی پریشانی کے یکطرفہ شکست دی ہے، اس نے پاکستانی ٹیم کی صلاحیت اور کوچز کی کمزور تربیت کا پول کھول دیا ہے۔
پاکستان ویمن ٹیم جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے اور انہیں مردوں کی ٹیم کی طرح کم و بیش ساری سہولتیں مل رہی ہیں لیکن ان تمام سہولتوں کے باوجود نتائج انتہائی حد تک حوصلہ شکن ہیں۔
ٹیم میں اقربا پروری اور دوستوں کو نوازنے کی پالیسی جاری ہے۔ دو سابق کپتانوں کے درمیان اختلافات کے باعث گروپ بندی بھی عروج پر ہے۔ سلیکشن کے معاملات بھی شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور کچھ ایسی کھلاڑی بھی ہیں جو ٹیم میں طویل عرصے سے شامل ہیں لیکن ان کی کارکردگی تنزلی کا شکار ہے۔
لیکن پھر بھی چیف سلیکٹر ان کی کارکردگی سے زیادہ ان کے سر پر کسی بڑی شخصیت کا ہاتھ دیکھ کر انہیں منتخب کر لیتے ہیں۔
پاکستان ویمن ٹیم نے گذشتہ ایک سال میں 15 ایک روزہ میچز کھیلے جن میں سے صرف دو میں کامیابی ملی جبکہ باقی تمام میچوں میں یکطرفہ شکست ہی ہوئی۔ جیت کا یہ تناسب انتہائی حد تک مایوس کن ہے۔
پاکستان ویسٹ انڈیز سیریز
ویسٹ انڈیز کی ویمن ٹیم جسے انٹرنیشنل کرکٹ میں کوئی خاص مقام حاصل ہے اور نہ ہی کوئی خاص کارکردگی اس کے ریکارڈ پر ہے، لیکن اس نے بھی پاکستان ویمن ٹیم کو گذشتہ دنوں ہونے والی ایک روزہ میچوں کی سیریز کے تینوں میچوں میں باآسانی شکست دے دی۔
سیریز کا پہلا میچ 18 اپریل کو کراچی کے نیشنل بینک ایرینا میں کھیلا گیا۔ جو ویسٹ انڈیز نے 113 رنز کے بھاری مارجن کے ساتھ جیت لیا۔
ویسٹ انڈیز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 269 رنز بنائے، جس میں کپتان ہیلی میتھیوز نے شاندار سنچری سکور کرتے ہوئے 140 رنز کی اننگز کھیلی۔ ان کی اننگز کی استقامت کا حال یہ تھا کہ پاکستانی بولرز بے بس نظر آرہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جوابی اننگز میں پاکستان ویمن ٹیم کی بیٹنگ حسب روایت ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی۔ کوئی بھی کھلاڑی جم کر نہ کھیل سکی اور پوری ٹیم 36ویں اوور میں 156 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔
دوسرا میچ 21 اپریل کو کراچی میں کھیلا گیا، جس میں پاکستان ویمن ٹیم نے گذشتہ شکست سے کچھ سبق حاصل کیا لیکن کپتان ندا ڈار کی کمزور حکمت عملی کے سبب ٹیم ایک ممکنہ جیت کو شکست میں تبدیل ہونے سے نہ روک سکی۔
پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 223 رنز بنائے۔ سدرہ امین اور بسمہ معروف نے نصف سنچری سکور کی لیکن ایک اچھے آغاز کے باوجود ٹیم زیادہ بڑا ہدف نہ دے سکی۔
ویسٹ انڈیز نے ہدف کا تعاقب کامیابی سے کیا۔ سٹیفنی ٹیلر کے 73 رنز کی اننگز نے ٹیم کو جیت کے قریب کر دیا۔ پاکستان کی بولنگ پہلی دفعہ اٹیکنگ حکمت عملی میں بہتر نظر آئی۔
میچ کا نتیجہ سنسنی خیز رہا جب آخری گیند پر ویسٹ انڈیز کی راماہارک نے فاطمہ ثنا کی گیند پر چوکا رسید کرکے میچ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ دیا۔ ورنہ ایسا لگتا تھا کہ پاکستان میچ جیت جائے گا۔ ندا ڈار اور ام ہانی نے عمدہ بولنگ کی لیکن جیت سے ہمکنار نہ کرسکی۔
23 اپریل کو کھیلے گئے تیسرے میچ میں بھی ویسٹ انڈیز نے پاکستان ویمن ٹیم کو چاروں خانے چت کر دیا۔ کپتان ہیلی میتھیوز نے سیریز کی دوسری سنچری سکور کی۔ ان کی 141 رنز کی اننگز نے میچ کا نقشہ شروع سے متعین کردیا۔ سٹیفنی ٹیلر نے بھی 47 رنز کی اننگز سے کپتان کا بھرپور ساتھ دیا۔
پاکستان کی بولنگ ایک بار پھر واجبی رہی۔ نشرہ سندھو نے تین وکٹیں لیں لیکن کوئی بھی بولر مہمان ٹیم کے لیے مشکلات نہ پیدا کرسکی۔
ویسٹ انڈیز نے مقررہ 50 اوورز میں 278 رنز بنائے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک بہت مشکل ہدف تھا۔ ٹیم کی بیٹنگ شروع سے متزلزل رہی اور کوئی بھی کھلاڑی وکٹ پر رک نہ سکی۔ سوائے منیبہ علی اور عالیہ ریاض کے کوئی بھی جم کر بیٹنگ نہ کرسکی اور پاکستانی ٹیم 190 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔
سیریز میں کلین سوئپ ہونے کے باوجود ٹیم مینجمنٹ نے اس شکست کو معمول قرار دیا ہے حالانکہ ہوم سیریز میں ہوم ٹیم کو ایڈوانٹیج ہوتا ہے اور سیریز جیتنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن اس یکطرفہ شکست پر ٹیم کے ہیڈ کوچ محتشم رشید نے بری کارکردگی کے اعتراف کے بجائے قسمت کی یاوری نہ ہونے سے زیادہ تشبیہ دی۔
ان کے خیال میں ٹیم کی کارکردگی بری نہیں ہے اور ہار جیت کھیل کا حصہ ہے تاہم وہ بھول گئے کہ ویمن ٹیم گذشتہ ایک سال سے مسلسل ہار رہی ہے۔
پاکستان ویمن ٹیم کا اگلا ہدف آئندہ ماہ انگلینڈ کا دورہ ہے، جہاں وہ تین ایک روزہ اور اتنے ہی ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔ انگلینڈ کی ٹیم ایک مضبوط حریف ہے اور پاکستانی ٹیم کی حالیہ کارکردگی کے بعد کسی غیر متوقع نتیجہ کی آرزو سراب تو ہوسکتی ہے، لیکن نیک تعبیر نہیں۔
پاکستانی ویمن ٹیم میں متعدد ایسی کھلاڑی ہیں جو طویل عرصے سے کھیل رہی ہیں لیکن ان کی کارکردگی میں کوئی نکھار آسکا ہے اور نہ ہی مستقل مزاجی۔ ان کی جگہ نوجوان کھلاڑی موقع حاصل کرسکتے ہیں۔
ٹیم کے بیٹنگ کوچ توفیق عمر سابق ٹیسٹ کرکٹر ہیں لیکن ان کی تربیت ٹیم کے کام نہیں آرہی۔ وہ اپنا تجربہ اور ہنر ویمن ٹیم کو منتقل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، ان کی جگہ اگر سلمان بٹ کو بیٹنگ کوچ مقرر کیا جائے تو بہتری کی امید ہے۔
پی سی بی کے چیئرمین نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی ویمن ٹیم کے مختلف ٹورنامنٹس شروع کروائے ہیں، جس سے یقینی طور پر نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا لیکن کوچز کو بیٹنگ پر بہت محنت کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر قومی کھلاڑیوں میں تکنیکی کمزوری ہے جسے بہتر کرنے اور بیٹنگ کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔