نو مئی ملزمان کے اہل خانہ پر ایک سال میں کیا گزری؟

نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے پر تشدد واقعات کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے والے 86 ملزمان اب بھی فیصلے کے منتظر ہیں جبکہ ان کے اہل خانہ دوہری مشکل میں ہیں۔

صوبہ پنجاب کے شہر میاں چنوں کی سلمیٰ (فرضی نام) ایک چھوٹی سے فیکٹری میں ملازمت کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ ان کے بڑے بھائی گذشتہ سال نو مئی کے بعد سے پابند سلاسل ہیں۔ 

سلمیٰ کے بھائی علی شان، جو پیشے کے اعتبار سے الیکٹریشن ہیں، خاندان کے واحد کفیل تھے، جن کی گرفتاری کے بعد گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی تھی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’چھوٹا بھائی ذہنی مریض ہے۔ والد حیات نہیں۔ میں بھی زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوں، اس لیے معمولی سی نوکری کر رہی ہوں۔‘

علی شان ان سینکڑوں افراد میں شامل ہیں، جنہیں گذشتہ سال نو مئی کو ہونے والے پر تشدد واقعات کے بعد لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علی شان کی ایک مبینہ ویڈیو بھی خبروں میں رہی، جس میں وہ کور کمانڈر ہاؤس، لاہور میں توڑ پھوڑ کرتے دکھائی دیے۔

مئی 2023 کے واقعات کے سلسلے میں حراست میں لیے جانے والے افراد میں سیاسی رہنما، کارکنان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ہمدردی رکھنے والے افراد شامل تھے، جن میں سے 106 کو فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

ان میں سے 20 کو رہائی مل چکی ہے جبکہ 86 ملزمان کو فیصلے کا انتظار ہے۔

دوسری جانب حراست میں لیے جانے والے ایسے افراد بھی تھے، جن کی گرفتاری کے بعد ان کے گھر والوں کو دہری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

نو مئی کو ہونے والے احتجاج اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف پاکستانی فوج نے اپنا موقف واضح کر رکھا ہے کہ ذمہ داران کو آئین کے مطابق سزا دینا پڑے گی۔

سات اپریل کو فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ ’یہ صرف افواج پاکستان کا مقدمہ نہیں، یہ پاکستانی عوام کا مقدمہ ہے۔‘

نو مئی کے واقعات میں گرفتار خاندانوں کے حالات

انڈپینڈنٹ اردو نے گرفتار ملزمان کے خاندان کے افراد سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ اس ایک سال کے دوران ان پر کیا بیتی؟

علی شان کی بہن نے بتایا: ’میرے والد فوت ہو چکے ہیں، علی شان سب سے بڑے بھائی ہیں اور ان سے چھوٹے بھائی ذہنی مسائل کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے، اس لیے اب مجھے کام کرنا پڑ رہا ہے۔ میں بالکل پڑھی لکھی نہیں ہوں اور اس سے پہلے کبھی کام نہیں کیا تھا مگر ذرائع آمدن ختم ہو جانے کی وجہ سے مجھے مجبوراً فیکٹری میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ بھائی کی گرفتاری سے گھر کا نظام تباہ ہو گیا کیوں کہ بھائی گھر کے واحد کفیل تھے۔ ’ہمارے گھر کا کرایہ بھی 15 ہزار ہے۔ بہت مشکل سے ہم نے گزارا کیا۔ مالک مکان نے بھی مکان خالی کرنے کا کہا اور ساری ذمہ داری مجھ پر آ گئی، اس مہنگائی کے وقت انتہائی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔‘

بہن کے بقول علی شان نو مئی کے چند دن بعد گرفتار ہوئے لیکن دو سے تین بعد پنجاب پولیس نے یہ کہہ کر انہیں چھوڑ دیا کہ ان کا اتنا مسئلہ نہیں ہے۔

’پولیس سے رہائی ملنے کے بعد وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے اور ہمارا بھی ان سے رابطہ نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں پر ہیں اور کہاں گئے ہیں۔

’انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے گئے اور نہ ملنے پر خاندان کے 13 افراد کو لے جا کر ایک کمرے میں رکھا گیا اور پھر میرے بھائی نے آ کر خود گرفتاری دے دی۔‘

انہوں نے بتایا کہ پہلی بار رہائی کے بعد دوسری بار یکم اپریل 2023 کو ان کے بھائی کو گرفتار کیا گیا۔

علی شان کی بہن نے بتایا کہ ’بھائی کی گرفتاری کے بعد کئی ماہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں اور پھر پچھلے سال عید کی رات ایک کال آئی جس کے بعد ہماری لاہور کینٹ میں ملاقات کروائی گئی۔‘

ملزم کی بہن کے مطابق اب ہر ہفتے ان کی ملاقات کروائی جاتی ہے اور اب حالات پہلے سے بہتر ہیں۔

علی شان کی بہن نے شکوہ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، نہ ہی کوئی مدد کی گئی۔ تین ماہ قبل بیرسٹر خدیجہ صدیقی نے خود رابطہ کیا اور کیس کو لیا۔

چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کے طالب علم

نو مئی کے واقعات میں گرفتار چارٹرڈ اکاؤنٹینسی (سی اے) کے طالب علم علی رضا بھی ہیں، جو اپنے گھر میں سب سے بڑے بیٹے ہیں۔

ان کی بہن نے بتایا: ’میرے بھائی طالب علم تھے اور اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے لاہور میں ہی ایک ہاسٹل شروع کر رکھا تھا اور ان کی گرفتاری کے بعد اب میں اسے چلا رہی ہوں۔‘

ان کے بقول علی رضا کی جناح ہاؤس کے باہر ایک تقریر وائرل ہوئی تھی مگر جناح ہاؤس کے اندر کی کوئی ویڈیو یا تصویر موجود نہیں ہے۔

علی رضا کی بہن نے بتایا کہ ان کے بھائی کو نو مئی کو ہی گرفتار کرلیا گیا تھا، جس کے بعد انہیں مغل پورا تھانے میں رکھا گیا، اس کے بعد کیمپ جیل بھیج دیا گیا اور پھر اس کے پانچ سے چھ دن بعد انسداد دہشت گردی فورس نے انہیں فوج کی تحویل میں دے دیا۔

انہوں نے اس حوالے سے مزید بتایا: ’ہمیں دو سے ڈھائی ماہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ہمارا بھائی کہاں ہے؟ زندہ بھی ہے کہ نہیں؟ دو ڈھائی ماہ بعد عید الاضحیٰ پر ہماری ملاقات علی رضا سے کروائی گئی۔‘

علی رضا کی بہن کے بقول اب ہر ہفتے کال پر بات اور ملاقات بھی ہوتی ہے، مزید یہ کہ اب کھانا بھی لے جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔

انہوں نے ملاقات کے حوالے سے بتایا: ’ہماری بھائی سے ملاقات ایک کمرے میں کروائی جاتی ہے اور وہاں لانے تک علی رضا کو ہتھکڑیاں بھی لگی ہوتی ہیں اور منہ پر کپڑا بھی ڈالا ہوتا ہے۔‘

علی رضا کی بہن نے دعویٰ کیا کہ ان کے بھائی دوران قید دو سے تین مرتبہ بھوک ہڑتال بھی کر چکے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مدد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا وکیل پرائیویٹ ہے۔ پی ٹی آئی نے نہ ہمیں وکیل فراہم کیا، نہ ہی معاشی طور پر ہماری مدد کی گئی جس کی ہمیں ضرورت تھی کیوں کہ علی رضا کے گرفتار ہونے سے ان کا کاروبار متاثر ہوا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ بیرسٹر خدیجہ جیسے لوگوں نے آواز اٹھائی تو پھر پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے اس پر کچھ بات کی۔

ملزمان کے اہل خانہ کی جانب سے ان شکوؤں پر کہ پی ٹی آئی نے انہیں کوئی قانونی معاونت فراہم نہیں کی، انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان تحریک انصاف سے رابطہ کیا ہے اور جواب موصول ہوتے ہی اسے رپورٹ میں شامل کردیا جائے گا۔

مردان کے شاہ زیب پر دورانِ حراست کیا گزری؟


نو مئی 2023 کو بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں مردان کے کارکن شازیب خان بھی شامل تھے، جنہیں گرفتاری کے بعد فوجی عدالت سے ایک سال کی سزا ہوئی۔شاہ زیب نے ایک انٹرویو میں قید میں گزرے اپنے دن اور پھر رہائی کا احوال سنایا۔
دوسری جانب مردان پولیس کے تفتیشی افسر انسپکٹر بشیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نو مئی واقعات میں ملوث افراد کو ریکارڈ کی گئی مختلف ویڈیوز، سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے توڑ پھوڑ کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف ایف آئی آر میں دہشت گردی اور اقدام قتل سمیت مختلف دفعات شامل کی گئی تھیں۔
انسپکٹر بشیر خان نے کسی بے گناہ شخص کو گرفتار کرنے کی تردید کی۔
 انہوں نے جیل سے رہا ہونے والے پی ٹی آئی کارکن شازیب خان کے حوالے سے بتایا کہ اگر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا تو پھر انہیں ایک سال کی سزا کیوں ہوئی؟
پولیس کے مطابق شاہ زیب خان کے خلاف فوج کے پاس ثبوت تھے۔

(رپورٹنگ: عبدالستار، مردان)

 

فوجی عدالت میں ٹرائل کیسے ہوتا ہے؟

نو مئی کے واقعات میں گرفتار ملزمان میں سے چار کا کیس لڑنے والی وکیل خدیجہ صدیقی نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں ہونے والی کارروائی دیگر عدالتوں سے کافی مختلف رہی۔

بیرسٹر خدیجہ نے بتایا کہ تمام کارروائی ایک بند کمرے میں ہوتی تھی جہاں صرف ایک وکیل کی اجازت ہوتی ہے، ساتھ میں نہ کسی معاون وکیل کو اجازت تھی نہ ہی ملزمان کے خاندان کے کسی فرد کو اجازت تھی۔

انہوں نے بتایا کہ وہاں لیفٹینیٹ کرنل اور میجر رینک کے افسران موجود ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ وہاں جیگ برانچ (پاکستانی فوج کا جج ایڈووکیٹ جنرل) کا بھی ایک رکن موجود ہوتا ہے مگر وہ پریکٹسنگ وکیل نہیں ہوتا۔

خدیجہ صدیقی کے مطابق بہت سے ملزمان کے وکیل نہیں ہیں اور انہیں جو وکیل فراہم کیا جاتا ہے وہ بھی آرمی آفیسر ہی ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ملٹری کورٹس میں قانون کی پیروی نہیں کی جا رہی تھی۔ آئین کا آرٹیکل 175 کہتا ہے کہ ایگزیکٹو اور جوڈیشری الگ ہیں مگر یہاں پر ایگزیکٹو جوڈیشری کا کام کر رہی تھی۔‘

ملزمان پر کون کون سی دفعات لگائی گئی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں بیرسٹر خدیجہ نے بتایا کہ تمام ملزمان پر ایک جیسی ہی دفعات اور الزامات ہیں۔

بقول بیرسٹر خدیجہ: ’ملزمان پر انٹری کے یا اپروچنگ کے الزامات ہیں۔ ان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سب سیکشن 3 لگا ہوا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 3 میں ترمیم کر کے عام شہریوں پر اس کا اطلاق کیا گیا۔

 خدیجہ صدیقی کے مطابق لاہور میں فوجی سماعت کا سامنا کرنے والے قید افراد کو ہر ہفتے گھر والوں سے بات کرنے اور ملاقات کرنے کی اجازت ہے مگر لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں قید افراد کے لیے یہ سہولت موجود نہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ 86 افراد ابھی قید ہیں اور سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو سزائیں سنانے سے منع کر رکھا ہے۔

نو مئی سے 12 مئی تک ہونے والے واقعات

نو مئی 2023 کو سابق وزیراعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو اس وقت رینجرز نے گرفتار کیا جب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران بائیو میٹرک کروا رہے تھے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے احتجاج شروع کر دیا گیا۔

احتجاج کے دوران عمران خان کی گرفتاری کے خلاف کارکنوں نے ملک کی مختلف شاہراہیں بلاک کیں۔

وفاقی دارالحکومت کی اسلام آباد ایکسپریس وے، سری نگر ہائی وے بھی گھنٹوں تک ٹائر جلا کر بلاک رکھی گئی۔

حالات اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے جب ملک میں مختلف علاقوں میں ہجوم نے فوجی یادگاروں کی توڑ پھوڑ اور لاہور میں کور کمانڈر کے گھر (جناح ہاؤس) میں داخل ہو کر اسے جلا دیا۔

پشاور میں 10 مئی کو ریڈیو پاکستان کی عمارت کو بھی جلا دیا گیا اور دیگر عمارتوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

11 مئی کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا اور عمران خان کو سکیورٹی خدشات کی بنا پر پولیس لائن گیسٹ ہاؤس میں پولیس کی تحویل میں رکھنے کا حکم دیا اور اگلے ہی دن اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے عمران خان کی ضمانت منظور کر لی۔

نو مئی سے 12 مئی کے دوران عمران خان کی ضمانت تک ملک بھر میں احتجاج جاری رہا اور امن و امان کو قائم کرنے کے لیے اس وقت کی حکومت نے فوج کو تعینات بھی کیا۔

اس سب کے دوران ہزاروں گرفتاریاں ہوئیں اور فوجی عدالتوں میں کیسوں کا سامنا کرنے والے 106 افراد میں سے عید الفطر سے قبل 20 افراد کی رہائی کے بعد اب بھی 86 افراد  کے مقدمات ملٹری کورٹ میں جاری ہیں۔

نو مئی واقعات میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے افراد

  1.  راجہ محمد احسان ولد راجہ محمد مقصود
  2.  محمد عبداللہ ولد کنور محمد اشرف
  3.  محمد ادریس ولد محمد شریف
  4. عمر فاروق ولد محمد صابر
  5.  سید حسن شاہ ولد سید اسف حسین شاہ
  6.  اسود راجپوت ورلد محمد اجمل
  7. راجہ دانش وحید راجہ عبدالوحید
  8. نادر خان ولد محمد اسرار خان
  9.  علی حسین ولد  خلیل الرحمٰن
  10. شہریار ذوالفقار، ذوالفقاراحمد
  11. لال شاہ ولد جہانزیب
  12. فرہاد خان ولد شاہد حسین خان
  13. جان محمد خان ولد طور خان
  14.  محمد عمران محبوب ولد محبوب احمد
  15. علی افتخار ولد افتخار
  16.  نعمان شاہ ولد محمد احمد شاہ
  17.  امر زوہیب ولد نظیر احمد شیخ
  18.  علی رضا ولد غلام مرتضیٰ
  19.  محمد ارسلان محممد سراج
  20. محمد عمیر ولد عبدالستار
  21. محمد رحیم ولد محمد نعیم خان
  22. ضیا الرحمٰن ولد محمد اعظم خورشید
  23. وقص علی ولد ایم اشرف
  24.  رئیس احمد ولد  شفیع اللہ
  25.  فیصل ارشاد ولد ظفر احسان
  26.  محمد بلاول حسین ولد منظور حسین
  27. محمد حاشر خان ولد طارق بشیر
  28.  حسن شاکر ولد شاکر حسین
  29.  فہیم حیدر ولد فاروق حیدر
  30.  ارزم جنید ولد عبدالرزاق
  31. میاں اکرم عثمان ولد میاں محمد عثمان
  32. عبدالہادی ولد عبدالقیوم
  33.  عبد اللہ عزیز ولد عزیز الرحمٰن
  34. میاں عباد فاروق ولد امانت علی
  35.  داؤد خان ولد شاد خان
  36. علی شاہ ولد نور محمد
  37.  عاشق خان ولد نصیب خان
  38.  سجاد احمد ولد محمد اقبال
  39. مدثر حفیظ ولد حفیظ اللہ
  40. بریگیڈیئرجاوید اکرم  ولد چودھری ایم اکرم
  41.  زاہد خان ولد محمد خان
  42.  خرم لیاقت ولد لیاقت علی شاہد
  43.  خرم شہزاد ولد لیاقت علی
  44. پیر ظفر محمد اسحاق بھٹہ ولد میر قمر الدین بھٹہ
  45. حامد علی ولد سید ہادی شاہ بخاری
  46.  محمد احمد ولد ایم نذیر مہر
  47.  سفیان ادریس ولد ادریس احمد
  48. عبدالستار ولد محمد سرور
  49.  محمد وقاص ولد ملک محمد خلیل
  50. منیب احمد ولد نوید احمد بٹ
  51.  محمد نواز ولد عبدالصمد
  52.  اشعر بٹ ولد محمد ارشد
  53.  محمد راشد ولد غلام حیدر
  54. راشد علی ولد لیاقت علی
  55. محمد انس ولد ایم ریاض انصاری
  56.  حمزہ شریف ولد محمد اعظم
  57.  امجد علی ولد منظور احمد
  58.  محمد فرخ ولد شمس تبریز
  59.  سلمان ولد زاہد نثار
  60.  فہد عمران ولد محمد عمران شاہد
  61.  محمد علی ولد محمد بوٹا
  62.  شیخ لئیق احمد ولد منظور احمد
  63.  عبدالجبار ولد عبدالصمد
  64.   انوار خان ولدا محمد خان
  65.  بابر جمال خان ولد محمد امجد خان
  66.  محمد بلال ولد محمد افضل
  67.  فہیم ساجد  ولد محمد خان
  68.  احسان اللہ خان ولد نجیب اللہ خان
  69.  عبدالرحمٰن ولد مشتاق احمد
  70.   محمد فیصل ولد محمد اشرف
  71. یاسر امین ولد امان للہ
  72. محمد الیاس ولد ایم فضل حکیم
  73.  محمد سلیمان ولد سعید غنی جان
  74. سہراب خان ولد ریاض خان
  75. اسداللہ درانی ولد بادشاہ زادہ
  76. محمد ایاز ولد صاحبزادہ خان
  77.  عمر محمد ولد پیرزادہ رحمٰن
  78. عزت خان ولد خان
  79. داؤد خان ولد امیر زیب
  80. حمت خان ولد نیاز محمد
  81. رئیس احمد ولد خائستہ رحمٰن
  82. اعجاز الحق ولد  فاروق
  83.  اکرام اللہ ولد شاہ زمین
  84.  گوہر رحمٰن ولد گل رحمٰن
  85.  ذاکر حسین ولد شاہ فیصل
  86. رحمت اللہ  ولد منجور خان
  87. شاہزیب ولد معاذ اللہ
  88.  شاکر اللہ ولد انوار شاہ
  89.  عدنان احمد ولد شیر محمد
  90. یاسر نواز ولد امیر نواز خان
  91.  سید علم ولد معاذ اللہ
  92.  زاہد خان ولد محمد نبی
  93. سمیع اللہ ولد میر داد خان
  94.  نائیک محمد خان ولد نصراللہ جان
  95.  خضر حیات ولد عمر قیاض خان
  96.  عزت گل ولد میردات خان
  97.  ثقلین حیدر ولد رفیع محمد خان
  98.  خالد نواز ولد حمید خان
  99.  رحیم اللہ ولد بیت اللہ خان
  100.  امین شاہ ولد محشر خان
  101.  محمد افاق خان ولد محمد اشفاق
  102. اکرم اللہ ولد خانزادہ

 نوٹ: یہ فہرست انڈپینڈنٹ اردو کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے فراہم کی گئی تھی، تاہم اس پر سرکاری ردعمل حاصل نہیں ہوسکا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست