پاکستان بار کونسل کی جانب سے پولیس کے ساتھ لاہور میں ہونے والے تصادم کے بعد آٹھ مئی کو ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا تھا جس کے بعد وکلا نے دو دن سے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
آج (جمعہ) ہائی کورٹ اور مقامی عدالتوں میں وکلا پیش نہ ہوئے اور صرف ارجنٹ نوعیت کے مقدمات کی سماعت ہوئی۔
ادھر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد خان نے صوبائی محکمہ داخلہ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ عدالتوں کی فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔
اس صورت حال کی پیش نظر پولیس کی بڑی تعداد لاہور کی عدالتوں کے اطراف اور احاطے میں ڈیوٹی پرمعمور ہے۔
اس صورتحال میں نہ صرف سائلین بلکہ روز مرہ کیسوں میں پیش ہونے والے وکلا بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
وکالا احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟
اس حوالے سے لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منیر احمد بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’ پانچ ماہ پہلے حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے لاہور کچہری ایوان عدل سے سول اور ٹرائل عدالتیں تحصیل سطح پر منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ ‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ’ لاہور کے وکلاء نے پانچ ماہ پہلے ہی مختلف اوقات میں ہڑتال و احتجاج کی کال دیتھی لیکن یہ صرف لاہور کی سطح پر تھی مگر جب بدھ کے روز ہم نے جی پی او چوک پر احتجاج کیا تو پولیس نے شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا۔ ‘
لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر نے بتایا کہ’ وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا اس طاقت کے استعمال پر پاکستان بار کونسل نے دو دن سے ملک بھر میں ہڑتال کی کال دی ہے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ ‘ہم نہیں چاہتے عدالتیں مختلف علاقوں میں منتقل ہوں جس وکلا اور سائلین شٹل کاک بن جائیں۔ کیونکہ اسلام آباد اور کراچی میں تمام مقامی اور ہائی کورٹس ایک ہی جگہ پر بنائی گئی ہیں۔ ‘
منیر بھٹی کے بقول، ‘یہ کوئی سیاسی تحریک نہیں ہے نہ ہم کسی سیاسی جماعت کی حمایت میں ہڑتال کر رہے ہیں اور یہ وکلاءکا متفقہ معاملہ جس کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ ‘
انہوں نے واضع کیا کہ جب تک حکومت اور لاہور ہائی کورٹ مقامی عدالتوں کی ایوان عدل سے منتقلی کا حکم نامہ واپس نہیں لیتی پر امن احتجاج ریکارڈ کراتے رہیں گے۔
ہائی کورٹ کے وکیل میاں داؤد نے کہا کہ ‘یہ بات درست ہے کہ لوئر مال پر ایوان عدل میں سینکڑوں عدالتیں ہونے کی وجہ سے اطراف میں پارکنگ کا مسئلہ ہے لیکن یہ معاملہ انتظامیہ کو حل کرنا چاہیے اس کے لیے عدالتوں کو منتقل نہ کیا جائے۔ ‘
انہوں مطالبہ کیا کہ’ اگر تحصیل سطح پر سائلین کو سہولت فراہم کرنا مقصود ہے تو ہائی کورٹ کے بینچز بھی ہر ڈویژن کی سطح پر قائم کیے جائیں۔ ‘
میاں داؤد کے بقول’ وکلا کسی سیاسی جماعت کی ایما پر احتجاج نہیں کر رہے تاہم بعض سیاسی عناصر اس پر امن تحریک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘
کیس کی پیروی کے لیے آئے ایک سائل کا کہنا تھا کہ’ پانچ ماہ سے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں دور دراز سے کیسوں کی پیروی کے لیے آتے ہیں اور رش کے باوجود وقت پر پہنچنے بعد اچانک معلوم ہوتا ہے کہ ہڑتال کی وجہ سے سماعت ملتوی ہوگئی۔ ‘
سائل کا شکوہ تھا کہ وکیلوں کو فیسیں دینے کے با وجود انصاف میں تاخیر ہورہی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملہ کو جلد حل کر کے عدالتی امور معمول کے مطابق بحال کیے جائیں۔
پولیس حکام کے مطابق عدالتوں کی منتقلی کا فیصلہ حکومت اور اعلی عدلیہ کا ہے اور پولیس نے صرف امن و امان قائم رکھنا ہوتا ہے۔
پولیس حکام نے اپنے موقف میں بتایا کہ بدھ کے روز بھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر جی پی او چوک سے عدالتوں میں جاکر گھراؤ سے وکلاکو روکنا پڑا۔ لیکن انہوں نے پولیس سے ہاتھا پائی شروع کر دی جس پر پولیس کو آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کرنا پڑا۔
پولیس حکام کے مطابق جن وکلا کو گرفتار کیا گیا انہیں رہا کر دیا گیا تھا مگر اب بھی جو امن وامان کے لیے خطرہ پیدا کرے گا تو قانون حرکت میں آئے گا۔
خیال رہے کہ لوئر مال پر عدالتی اوقات میں مین سڑک کے اطراف گاڑیوں اورموٹر سائیکلوں کی پارکنگ سے ٹریفک جام رہنا معمول بنا ہوا ہے۔ انتظامیہ کو اس مسئلہ کے پیش نظر بھی عدالتی ماڈل ٹاؤن، کینٹ، رائیونڈ تحصیل میں منتقل کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا ہے۔