لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کو بھی مشکوک خط موصول

ڈی آئی جی آپریشنز لاہور علی ناصر رضوی کے مطابق ’خطوط چونکہ پوسٹ کیے جا رہے ہیں، اس لیے بھیجنے والوں کو تلاش کرنے میں وقت درکار ہوگا، لیکن خطوط کے لفافوں میں کیمیکل سے متعلق بھی چیک کیا جا رہا ہے۔‘

پولیس کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کو موصول ہونے والے مشکوک خطوط کی چھان بین کی جارہی ہے (ویڈیو سکرین گریب/محمد ارشد)

عدالتی عملے کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کو بھی جمعے کو مشکوک خط موصول ہوا، جسے پولیس نے اپنی تحویل میں لے کر تحقیقات کا آغاز کر دیا۔

جمعے کو جسٹس باقر علی کو خط موصول ہونے پر عدالتی عملے نے جج کو آگاہ کیا تھا، جس کی اطلاع ملتے ہی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے حکام اور پولیس لاہور ہائی کورٹ پہنچی۔

سی ٹی ڈی حکام کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو ملنے والے مشکوک خطوط سے متعلق چھان بین جاری ہے اور ابھی کسی زہریلے پاؤڈر سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

جسٹس علی باقر نجفی کو خط موصول ہونے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو مشکوک خطوط موصول ہونے کی تعداد چھ ہوگئی ہے۔

یکم اپریل سے لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو مشکوک خطوط موصول ہونے کا سلسلہ شروع ہوا، مگر ابھی تک خطوط بھیجنے والوں کا سراغ نہیں مل سکا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو بھی مشکوک خطوط ملنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔

منگل کو سائفر کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق نے انکشاف کیا تھا کہ ’ہم تمام ججوں کو مشکوک خطوط موصول ہوئے، جن میں انتھراکس (کی موجودگی) کا بتایا گیا ہے اور خطوط میں بنیادی طور پر دھمکی دی گئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے عملے نے بتایا کہ ’چیف جسٹس عامر فاروق سمیت آٹھ ججوں کو مشکوک خطوط موصول ہوئے، جو ریشم اہلیہ وقار حسین نامی خاتون نے لکھے جبکہ خطوط پر خاتون کا ایڈریس موجود نہیں تھا۔‘ جس کے بعد اس واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔

جمعے کو جسٹس باقر نجفی کو مشکوک خط موصول ہونے کے بعد ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشن لاہور علی ناصر رضوی نے  لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں صحافیوں کو بتایا کہ ’موصول ہونے والے خطوط کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، تاہم اس حوالے سے چھان بین جاری ہے اور خطوط بھیجنے والوں کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’خط چونکہ پوسٹ کیے جا رہے ہیں، اس لیے بھیجنے والوں کو تلاش کرنے میں وقت درکار ہوگا، لیکن خطوط کے لفافوں میں کیمیکل سے متعلق بھی چیک کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ تمام عدالتوں کے ججوں کو موصول ہونے والی ڈاک کو بھی چیک کیا جا رہا ہے۔‘

ہائی کورٹ بار لاہور کے صدر اسد منظور بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ججوں کو خطوط ملنا تشویش ناک ہے۔ یہ جج صاحبان پر دباؤ ڈالنے یا خوفزدہ کرنے کی مذموم کوشش ہوسکتی ہے۔ اصل حقائق خط بھیجنے والوں کی گرفتاری کے بعد ہی سامنے آ سکتے ہیں۔ اس معاملے پر پولیس اپنا کام کر رہی مگر ابھی تک کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وکلا برادری ہمیشہ کی طرح ججوں کے ساتھ کھڑی ہے اور اس طرح کے کاموں سے ججوں کو نہ پریشان کیا جا سکتا ہے، نہ ہی ڈرایا جا سکتا ہے۔‘

اسد منظور بٹ کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے پر ہم نے آج اجلاس طلب کر رکھا ہے، جس میں مشاورت سےآئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔ ججوں کو موصول ہونے والی ڈاک کے لیے ایک علیحدہ سے سیل قائم ہونا چاہیے تاکہ خطوط کو پہلے چیک کیا جائے، مشکوک خطوط کو پہلے ہی دیکھ لیا جائے اور اس کے بعد ججوں کو ڈاک جانی چاہیے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ ’حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کی تحقیق کروائی جائے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ  اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ملنے والے مشکوک خطوط کے معاملے پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اس پر سیاست کو نزدیک بھی نہیں آنے دینا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان