جنوبی وزیرستان دھماکہ: بچے سمیت ایک ہی خاندان کے چار افراد کی موت

ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ گھر کے اندر ہوا ہے تاہم دھماکے کی نوعیت کے بارے میں ابھی تفتیش جاری ہے جس میں میاں، بیوی اور ایک بچے سمیت چار افراد کی موت ہوئی ہے جبکہ ایک بچی زخمی ہے۔

20 مئی 2016 کو پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر سے لی گئی اس تصویر میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر واقع قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں خالی مکانات نظر آ رہے ہیں (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے جنوبی وزیرستان میں ضلعی انتظامیہ کے مطابق گھر میں ایک ہی خاندان کے چار افراد کی ’دھماکے‘ میں موت کے حوالے سے تفتیش جاری ہے۔

یہ واقعہ جنوبی وزیرستان کے تحصیل لدھا کے علاقے تنگی بادنیزائی میں منگل کو پیش آیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلٰی عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو واقعے کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ دھماکہ گھر کے اندر ہوا ہے تاہم دھماکے کی نوعیت کے بارے میں ابھی تفتیش جاری ہے جس میں میاں، بیوی اور ایک بچے سمیت چار افراد کی موت ہوئی ہے جبکہ ایک بچی زخمی ہے۔

عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ خاندان جس کے سربراہ بانوت خان نامی شخص تھے، گذشتہ روز اپنے علاقے میں منتقل ہوا تھا جبکہ ابھی تفتیش کر رہے ہیں کہ یہ دھماکہ ڈرون کا تھا یا آئی ای ڈی تھا لیکن اس حوالے سے اب کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب مقامی افراد اور اسی علاقے سے سابق رکن قومی اسمبلی جمال الدین نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ یہ مبینہ طور پر ڈرون حملہ تھا لیکن سرکاری ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

جمال الدین نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خاندان گرمی میں اضافے کی وجہ سے اپنے علاقے واپس منتقل ہواتھا لیکن اسے گذشتہ شب مبینہ ڈرون حملے کا نشانہ بنایا ہے۔

مقامی صحافی اور محسود پریس کلب کے صدر فاروق محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے اور موسم سرما میں یہاں شدید سردی ہوتی ہے تو لوگ یہاں سے نقل مکانی کر کے موسم گرما میں واپس لوٹ آتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شدت پسندی کے دوران یہ علاقہ بد امنی کا شکار رہا ہے اور 2009 کے فوجی آپریشن کے بعد یہاں سے مقامی آبادی نے نقل مکانی کی ہے۔

اس کے بعد فاروق محسود کے مطابق 2018 تک عارضی طور پر بے گھر افراد کی واپسی ہوئی ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے دوبارہ شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہماری سکیورٹی ذرائع سے جو بات ہوئی ہے تو ان کا کہنا ہے کہ گھر کے اندر بارودی مواد کا دھماکہ ہوا ہے لیکن اس حوالے سے ابھی تفتیش کا مرحلہ جاری ہے۔‘

فارق محسود نے بتایا کہ ’مقامی افراد اس کو مبینہ ڈرون حملہ قرار دے رہے ہیں لیکن علاقے میں کمیونیکیشن نظام نہ ہونے کی وجہ سے صحافیوں کو بھی تصدیق کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔‘

جنوبی وزیرستان سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ رکن صوبائی اسمبلی آصف خان نے اس واقعے کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجے گئے بیان میں بتایا کہ ’مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس علاقے میں ڈرون حملہ ہوا ہے اور یہ دردناک لمحہ ہے۔ اس پر میں آج ہونے والے اسمبلی اجلاس میں بات کروں گا۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’ابھی معلومات کی تصدیق نہیں ہو رہی ہے اور جب چیزیں واضح ہو جائیں، تو قوم کی مشاورت سے قدم اٹھاؤں گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان