دنیا کی توجہ اب بھارت کے جوہری پروگرام پر ہے: شیریں مزاری

مسئلہ کشمیر، انسانی حقوق، ایٹمی ہتھیار اور میڈیا پر سینسر شپ کے حوالے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے حالیہ بھارتی بیانات سے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں پر بحث کا رخ بدل کر بھارت کی طرف ہو گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں شیریں مزاری کی توجہ اس تنقید پر دلائی گئی کہ وزیراعظم عمران خان نے بار بار مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جوہری جنگ کے خدشات ظاہر کر کے بین الاقوامی برادری کی نظر ایک بار پھر پاکستان کے جوہری پروگرام پر کروائی ہے جو پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے تو انہوں نے اس تاثر کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت پاکستان کو جوہری جنگ کی دھمکی دیتا ہے تو ’ہمیں دنیا کو الرٹ کرنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو ہٹنے کے بعد یہ خدشہ ہے کہ ’خونریزی ہو گی‘ اور خونریزی کے بعد بین الاقوامی برادری کو مداخلت کرنا پڑے گی۔

ڈاکٹر شیریں مزاری کا انڈپینڈنٹ اردو کو دیا گیا مکمل انٹرویو دیکھیے

ڈاکٹر شیریں مزاری کا کشمیر کے حوالے سے کہنا تھا کہ بھارت نے کشمیر کو ضم کرنے کی کوشش کی ہے۔

وفاقی وزیر سے جب مسئلہِ کشمیر پر پاکستان کی سفارتی کاوشوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جنگ تو شروع نہیں کر سکتا مگر پاکستان کے پاس کافی آپشنز موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سفارتی اقدامات کی وجہ سے پہلی بار انسانی حقوق کے معاملے پر بین الاقوامی تنظیمیں اور مغربی ممالک بھارت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر بھارت جنگ کی طرف بڑھا تو پاکستان بھی جواب دے گا، جیسے بالاکوٹ کے بعد دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر شیریں مزاری سے جب پوچھا گیا کہ آیا وزارت انسانی حقوق ان کا پہلا انتخاب تھا یا وہ وزارت خارجہ چاہتی تھی؟ تو ان کا کہنا تھا وزارت انسانی حقوق کا مینڈیٹ بھی وزارت خارجہ سے ملتا جلتا ہے اور ’وزارت خارجہ کے لیے اگر وزیراعظم نے کسی اور کا انتخاب کیا ہے۔۔۔۔ تو پھر انسانی حقوق میری ترجیح تھی۔‘

گذشتہ ایک سال کے دوران آزادی اظہار رائے سلب کیے جانے کی خبروں پر ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے پر پابندی نہیں ہے مگر غلط خبروں پر پابندی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا: ’وزیراعظم پر ذاتی حملے کیے گیے جو غلط ہے اور اس حوالے سے ان کی حکومت کارروائی اور قانون سازی بھی کر رہی ہے۔‘

سیاست داںوں کے انٹرویوز اور میڈیا ٹاک پر پابندی کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا کہ مولانا فضل الرحمن کے انٹرویوز پر پابندی لگائی جاتی ہے جبکہ جہانگیر ترین، جن کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، انہیں میڈیا پر بات کی اجازت ہے جس سے سینسر شپ کا تاثر جاتا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن پر کوئی پابندی نہیں بلکہ وہ آئے روز حکومت کو دھمکی دیتے رہتے ہیں۔

جہانگیر ترین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جہانگیر کو جیل میں نہیں ڈالا گیا، ان پر صرف انتخابات لڑنے کی پابندی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست