فلسطین سمیت دنیا میں جبری بےگھر افراد کی تعداد میں اضافہ

یو این آر ڈبلیو اے کا اندازہ ہے کہ گذشتہ سال کے آخر تک غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے تباہ کن تشدد سے 17 لاکھ لوگ (پٹی کی آبادی کا 75 فیصد) بےگھر ہو چکے تھے جن میں سے کئی فلسطینی پناہ گزین متعدد بار غزہ میں ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے۔

10 اپریل، 2024 کو رفح کیمپ میں ایک بے گھر فلسطینی خاتون عید الفطر کے موقعے پر اپنے رشتہ دار کو فون کر کے رو رہی ہیں (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این یچ سی آر کی 2024 کی گلوبل ٹرینڈز رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال پوری دنیا میں جبری طور پر بےگھر ہونے والے افراد کی تعداد نئی تاریخی سطح تک پہنچ گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر مئی 2024 تک 12 کروڑ افراد دنیا بھر کے ممالک میں جبری طور پر بےگھر ہوئے اور اس اضافے میں یہ رجحان مسلسل بارویں سال دیکھا گیا جو نئے اور بدلنے والے تنازعات اور دیرینہ بحرانوں کو حل کرنے میں ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اگر ان تمام بےگھر افراد کو جمع کیا جائے تو یہ تعداد دنیا کے 12ویں سب سے بڑے ملک کی آبادی جتنی ہوگئی۔ جاپان کی آبادی بھی لگ بھگ اتنی ہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان اعداد و شمار میں ہوشربا اضافے کی اہم وجہ سوڈان میں تباہ کن تنازع ہے جہاں اپریل 2023 سے 71 لاکھ سے زیادہ نئے افراد بےگھر ہوئے جب کہ 19 لاکھ پہلے ہی پناہ کی تلاش ملک سے باہر فرار ہو گئے تھے۔ 2023 کے آخر میں مجموعی طور پر ایک کروڑ آٹھ لاکھ سوڈانی بےگھر ہوئے۔

ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو اور میانمار میں پچھلے سال سے جاری لڑائی میں بھی لاکھوں افراد اندرون ملک بےگھر ہوئے۔

اقوام متحدہ کے ایک اور ذیلی ادارے یو این آر ڈبلیو اے کا اندازہ ہے کہ گذشتہ سال کے آخر تک غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے تباہ کن تشدد سے 17 لاکھ لوگ (پٹی کی آبادی کا 75 فیصد) بےگھر ہو چکے تھے جن میں سے کئی فلسطینی پناہ گزین متعدد بار غزہ میں ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے۔

اس حوالے سے شام میں بھی دنیا کا سب سے بڑا بحران موجود ہے جہاں ایک کروڑ 38 لاکھ جبری طور اندرونی اور بیرونی طور پر بےگھر ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق اس بڑھتی ہوئی تعداد کے پیچھے ان گنت انسانی المیے پوشیدہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلیپو گراندی نے کہا کہ ان مصائب کے پیش نظر عالمی برادری کو جبری بے دخلی کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر متحرک کرنا چاہیے۔

فلیپو گراندی نے کہا: ’یہی وقت ہے کہ متحارب فریقین جنگ کے بنیادی قوانین اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ تنازعات، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لیے بہتر تعاون اور ٹھوس کوششوں کے بغیر پناہ گزینوں کے اعداد و شمار بڑھتے رہیں گے اور ان کے نتائج تازہ مصائب اور شدید انسانی ردعمل کی صورت میں سامنے آئیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پناہ گزینوں کی اکثریت اپنے پڑوسی ممالک میں مقیم ہے جن میں سے 75 فیصد پناہ گزین کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں مقیم ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2023 میں دنیا بھر میں 50 لاکھ سے زیادہ افراد اندرونی طور پر بےگھر ہوئے اور 10 لاکھ پناہ گزین واپس اپنے وطن واپس لوٹے۔ یہ اعداد و شمار طویل مدتی حل کی جانب کچھ پیش رفت کو ظاہر کرتے ہیں۔

مثبت طور پر 2023 میں دوبارہ آباد کاری کرنے والے افراد کی تعداد 160,000 ہوگئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پناہ گزینوں اور ان کی میزبانی کرنے والی کمیونٹیز کو یکجہتی اور مدد کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں موسمیاتی بحران پر نیا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ بحران کس طرح تیزی سے اور غیر متناسب طور پر بےگھر ہونے والے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا