مئی 1949 میں حکومت پاکستان نے سٹیٹ بینک کے آرڈر میں ترمیم کر دی جس کا مقصد مرکزی بینک کو اختیار دینا تھا کہ وہ حاجیوں کے لیے خصوصی ’حج نوٹ‘ جاری کر سکے۔
پہلا حج کرنسی نوٹ مئی 1950 میں 100 روپے کا جاری ہوا۔ اس کا ڈیزائن تو عام 100 روپے کے نوٹ جیسا ہی تھا، تاہم اس کا رنگ سبز سے سرخ کر دیا گیا اور اس کے اوپر ایک خاص تحریر کا اضافہ کر دیا گیا کہ ’یہ نوٹ صرف سعودی عرب جانے والے حاجیوں اور عراق جانے والے زائرین کے لیے ہے۔‘
یہ کرنسی نوٹ پاکستان میں استعمال نہیں ہو سکتے تھے اور صرف سعودی عرب اور عراق میں استعمال کے لیے جاری کیے گئے تھے۔ حاجی یہ نوٹ سعودی بینکوں کو دے کر بدلے میں ریال خرید سکتے تھے اور سعودی بینک یہ نوٹ سٹیٹ بینک کو واپس کر کے زرمبادلہ لے لیتے۔
حکومت کو خصوصی حج کرنسی جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کی وجوہات کیا تھیں؟ درحقیقت یہ بھی ان معاشی چیلنجوں میں سے ایک تھا جو پاکستان کو اپنے قیام کے فوراً بعد درپیش ہوئے۔
حاجیوں کے ذریعے روپے کی سمگلنگ
جب پاکستان 1947 میں قائم ہوا تو کوئی بھی فرد پاکستان سے باہر روپیہ لے جا کر اس کو آزادانہ طور پر دوسری کرنسیوں میں تبدیل کروا سکتا تھا۔
پاکستان ایک معاہدے کے تحت پابند تھا کہ وہ تمام بیرونی ادائیگیاں اپنی کرنسی کو برطانوی پونڈ سے تبادلے کے ذریعے کرے گا۔
اس کا فائدہ کرنسی کے سمگلروں نے اٹھانا شروع کر دیا۔ وہ پاکستانی روپیہ باہر لے کر جاتے کسی بھی بینک کو دے کر پاؤنڈز خرید لیتے۔
سونے کے سمگلروں کو تو یہ اور زیادہ منافع بخش لگا، کیونکہ اس دور میں پاکستان اور انڈیا میں سونے کی درآمد اور برآمد پر مکمل پابندی تھی۔ لیکن دوسری طرف دونوں ممالک میں سونے کی مانگ بہت زیادہ تھی، جسے پورا کرنے کے لیے سونے کے سمگلر خلیجی ممالک میں روپیہ لے کر جاتے، سونا خریدتے اور پھر یہ سونا پاکستان سمگل کرتے۔
کچھ سمگلر پکڑے جاتے اور بہت سے سونا لانے میں کامیاب ہو جاتے۔ چنانچہ جتنی رقم میں سمگلر خلیجی ممالک میں سونا خریدنے میں صرف کرتے اتنا ہی بدلے میں بین الاقوامی بینک حکومت پاکستان سے زرمبادلہ مانگ لیتے۔
اس طرح پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر سونے کی سمگلنگ ایک بڑا بوجھ بن گئی۔
ستمبر1949 میں برطانوی پاؤنڈ کی قدر میں کمی ہو گئی لیکن پاکستان نے فیصلہ کیا کہ وہ برطانیہ کی پیروی میں روپے کی قدر کم نہیں کرے گا حالانکہ ایسا نہ کرنے سے روپے کی سمگلنگ میں اضافہ ہو سکتا تھا۔
اس خدشے کے پیشِ نظر پاکستان نے روپے کے ملک سے باہر جانے اور ملک میں لانے پر مکمل پابندی لگا دی۔ صرف سعودی عرب جانے والے حاجی اور عمرہ زائرین حکومت کی مقررہ حد کے مطابق کرنسی لے جا سکتے تھے۔
سعودی بینک اس کرنسی کو واپس پاکستان بھیج کر تبدیل کروا لیتے، لیکن پاؤنڈ کی قدر میں کمی کے بعد دیکھنے میں آیا کہ جتنی کرنسی حاجی لے کر سعودی عرب جاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ کرنسی واپس حکومت پاکستان کے پاس تبادلے کے لیے آ رہی ہے۔
اس سے واضح تھا کہ سمگلر پاکستانی روپیہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں لے جاتے ہیں اور پھر بینکوں کے جائز چینل کے ذریعے زرمبادلہ لے کر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔
اس رجحان کے خاتمے کے لیے حکومت نے حج کرنسی نوٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
حج کرنسی نوٹ جاری کرنے سے پہلے ایک تجویز یہ بھی تھی کہ حاجیوں کو ٹریولر چیک یا بینک ڈرافٹ جاری کیے جائیں لیکن پھر یہ قیاس کیا گیا کہ زیادہ تر حاجی پڑھ لکھ نہیں سکتے اس لیے ان کے لیے مشکل پیدا ہو جائے گی۔ اس پس منظر میں خصوصی کرنسی نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ ہوا۔
حج نوٹ 1994 تک استعمال میں رہے
حج کرنسی نوٹ جاری کرنے سے ایک سال پہلے یعنی 1949 میں جو رقم سعودی عرب سے کرنسی ایکسچینج کے لیے واپس آرہی تھی وہ دو کروڑ 80 لاکھ روپے سے زیادہ تھی۔
جب کہ خصوصی نوٹوں کے اجرا کے بعد جو رقم سعودی بینکوں سے اگلے سال واپس آئی وہ تقریباً ایک کروڑ 18 لاکھ روپے تھی۔
حج نوٹوں کے اجرا سے نہ صرف سرکاری خزانے پر پڑا بہت بڑا بوجھ اتر گیا بلکہ یہ نوٹ حاجیوں میں مقبول بھی ہوئے، جس کو دیکھتے ہوئے 100 روپے کے بعد ستمبر 1951 میں 10 روپے کا حج کرنسی نوٹ بھی جاری کر دیا گیا۔
لیکن یہ نوٹ صرف سعودی عرب جانے والے عازمین استعمال کر سکتے تھے، عراق جانے والے زائرین نہیں۔
بعد ازاں سعودی حکومت نے بھی 1953 میں حجاج کرام کے لیے کرنسی رسیدیں اور ٹریولر چیکس متعارف کروائے، جن کا استعمال حج نوٹوں جیسا ہی تھا۔ سعودی رسیدیں اور ٹریولر چیک پاکستانی بینکوں سے بھی دستیاب ہوتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سٹیٹ بینک کراچی اور چٹاگانگ کی بندر گاہوں پر کاؤنٹر لگا کر حجاج کو خصوصی کرنسی دیتا تھا کیونکہ اس زمانے میں زیادہ تر حاجی بحری جہاز کے ذریعے ہی سفر کرتے تھے۔
بعد میں سعودی عریبین مانیٹری ایجنسی نے پاکستان سے کہا کہ وہ حجاج کو رسیدیں اور ٹریولر چیکس فراہم کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہا ہے اس لیے حکومت پاکستان نے آنے والے سالوں میں سعودی عرب کی جاری کردہ رسیدیں اور ٹریولر چیکس کا کھاتا اپنی سالانہ رپورٹوں میں ظاہر نہیں کیا۔
ٹریولر چیکس کے استعمال میں سال بہ سال اضافہ دیکھا گیا۔ 1949 سے 1956 تک صرف حج نوٹ ہی جاری ہوتے تھے۔
تاہم 1957 سے حج نوٹوں کے ساتھ ساتھ ٹریولر چیک کا استعمال بھی شروع ہو گیا، جو 1967 تک بڑھ کر حج نوٹوں کے برابر آ گیا۔
اس سال 79 لاکھ 32 ہزار روپے کے حج نوٹ اور سات لاکھ 24 ہزار 600 روپے مالیت کے ٹریولر چیک جاری ہوئے۔ حج نوٹوں کا استعمال 1994 تک جاری رہا۔
عراق کا نام حج نوٹوں سے ہٹا دیا گیا؟
جب 100 روپے کا پہلا حج نوٹ جاری کیا گیا تو اس پر لکھا گیا کہ یہ صرف سعودی عرب اور عراق میں قابل استعمال ہے، تاہم جب دس روپے کا حج نوٹ جاری ہوا تو اس سے عراق کا نام ہٹا دیا گیا۔
محدود تعداد میں ان نوٹوں کی چھپائی کی وجہ سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ 100 روپے کے نوٹ سے بھی عراق کا نام ہٹایا گیا تھا یا نہیں۔
ہر سال چونکہ حاجیوں کی تعداد کم یا زیادہ ہوتی رہتی تھی اس لیے ان نوٹوں کی تعداد بھی گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔
مثال کے طور پر 1958 میں پاکستان سے 17000 لوگ حج کرنے گئے، جن پر 60 لاکھ امریکی ڈالر کا زرِمبادلہ خرچ ہوا جبکہ 1959 میں حکومت نے حاجیوں کی تعداد گھٹا کر نو ہزار 200 کر دی، جس سے حکومت کو 30 لاکھ امریکی ڈالر کی بچت ہوئی تھی۔