پانچ بےمثل فنکار جو کسی ایوارڈ کے محتاج نہیں

امیتابھ کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ مل گیا، لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بہت سے لوگ ایسے تھے جو اس اعزاز کے کہیں زیادہ حق دار تھے مگر انہیں یہ ایوارڈ نہیں ملا۔

وہ جو ہر ایوارڈ سے بالاتر ہیں (فلمی پوسٹر)

گذشتہ روز امیتابھ بچھن کو انڈین سینما کے سب سے بڑا ایوارڈ دادا صاحب پھالکے کے لیے نامزد کیا گیا جس پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔

1969 سے اب تک 49 لوگ یہ ایوارڈ حاصل کر سکے ہیں، اور اب بچن دادا کے ایوارڈ کے ساتھ ہی ففٹی مکمل ہو گئی۔ لیکن اس دوران بہت سے کھلاڑی ان امپائروں کے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گئے جو امپائر تو تھے، نیوٹرل نہ تھے۔

50 ناموں کی اس کہکشاں میں بعض ستارے تو سورج بن کر چمکتے ہیں، لیکن بعض اس بری طرح ٹمٹما رہے ہیں کہ اب بجھے کہ تب بجھے۔  

کچھ ستارے جمگھٹوں کی صورت اپنے اپنے کونوں میں برج بنا کر چمک رہے ہیں، جن میں ایک ہی خاندان کے تین نام بھی شامل ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آکاش گنگا میں شامل ہونے کے لیے ذاتی دمک کے علاوہ جوڑ توڑ اور تعلقات کی چمک کا چمکتار زیادہ اہم ہے۔

دوسری جانب کچھ ایسے ہیں جو اس کہکشاں سے باہر ضرور ہیں، لیکن ان کی روشنی اس قدر خیرہ کن ہے کہ چندھیائے دیتی ہے اور یہ سوال بن کر آنکھوں کے راستے دماغ میں اتر جاتی ہے کہ آخر انہوں نے کیا قصور کیا تھا کہ وہ اعزاز بانٹنے والے پینل کی نظروں میں نہ سما سکے۔  

ذیل میں ایسے ہی چند ناموں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

بمل رائے

بمبئی کی فلم نگری میں بھانت بھانت کا ٹیلنٹ ضرور اکٹھا ہوا لیکن جو من موہن رنگ بنگالیوں نے بکھیرے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئے، اور ان میں سب سے شوخ رنگ نام بمل رائے کا ہے۔

1950 میں کلکتہ سے بمبئی آتے ہوئے بمل رائے سلِل چودھری، ہریشک مکھرجی، اسیت سین اور کمل بوس جیسے موتی لائے۔ اطالوی فلم ’بائیسکل تھیوز‘ دیکھنے کے بعد بمل رائے نیو ریئلسٹ تکنیک سے متاثر ہو کر انہوں ’دو بیگھا زمین‘ بنائی جو ہندوستانی سینما کی تاریخ میں سنگ میل ہے۔

اس کے بعد بھی بمل دا کا سفر رکا نہیں۔ اچھوت عورت کے موضوع پہ بنائی گئی فلم ’سجاتا‘ ہو یا مضبوط، دکھ بھوگتی، قید کاٹتی ’بندنی‘ فلم کی کلیانی ہو، سوشل ٹیبوز پہ سوال اٹھاتی یہ فلمیں وقت سے بہت آگے تھیں۔ دلیپ کمار کو ’دیوداس‘ اور ’مدھومتی‘ میں جس طرف بمل دا نے استعمال کیا کوئی دوسرا اس کی خاک کو بھی نہ چھو سکا۔ ہندوستانی سینما سے گلزار کا باقاعدہ متعارف کروانے والا بمل دا ستیہ جیت رے کو چھوڑ کے بہت آسانی سے کسی فلم ڈائریکٹر یا پروڈیوسر سے کم نہیں۔

تاہم دادا بھائی پھالکے ایوارڈ کے ہال آف فیم میں بی آر چوپڑا اور یش چوپڑا کا نام بمل رائے سے اوپر دیکھ کے چپڑی ہوئی اور دو دو کا محاورہ یاد آتا ہے۔

راجیش کھنہ

انڈین فلم انڈسٹری میں عمدہ اداکاروں کی تو کمی نہیں۔ لیکن سپرسٹارڈم کی کہانی راجیش کھنہ سے شروع ہو کر انہی پہ ختم ہو جاتی ہے۔ آرادھنا فلم سے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پہ پہنچنے والے راجیش کھنہ کی مسکراہٹ، گیت گاتے ہوئے گردن ہلانا اور آنکھیں جھپکانا ایسی ادائیں تھیں جنہوں نے نوجوانوں میں مستیاں بھر دیں۔

راجیش کھنہ ایک لہر تھی جو اس کی زد میں آیا ساتھ بہتا چلا گیا۔ مسلسل 15 ہٹ فلمیں دینے والا راجیش کھنہ اپنے وقت میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار تھا۔ جہاں تک اداکاری کی بات ہے تو ’امر پریم،‘ ’آنند‘ اور ’اویشکار‘ اس کی لاجواب فلمیں ہیں۔

پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ اگر ششی کپور اور ونود کھنہ کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ مل سکتا ہے تو راجیش کھنہ کو کیوں نہیں؟ آخر ونود کھنہ کی طرح راجیش بھی پارلیمنٹ کے رکن رہے۔ فرق صرف ایک تھا کہ راجیش کھنہ کانگریس کی طرف سے تھے جبکہ ونود بی جے پی کے وزیر تھے۔

محمد رفیع

پلے بیک سنگنگ کے خدوخال واضح کرنے میں لتا کے ساتھ اہم ترین نام رفیع کا ہے لیکن حیرت انگیز طور پہ حکومتی سطح پہ اس کے اعتراف سے ہمیشہ گریز کیا گیا۔ 1967 میں رفیع کو پدم شری سے نوازا گیا تو ابتدا میں رفیع نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

موسیقار نوشاد کے سمجھانے پہ رفیع مان تو گئے لیکن وہ اسے قدردانی سے زیادہ ناقدری تصور کرتے رہے۔ بھارتی سویلین اعزازات میں پدم شری کا نمبر بھارت رتن، پدم وبھوشن اور بدم بھوشن کے بعد آتا ہے۔ شاید یہ ایوارڈ بخشنے والے رفیع کو چوتھے درجے کا گلوکار تصور کرتے ہوں!

چار دہائیوں پہ پھیلے کیریئر میں، 17 سے زائد زبانوں میں رفیع نے ہر رنگ، ہر کیفیت کا گیت گایا۔ لتا اور آشا کے ساتھ خاموش طبع رفیع کا نام اس فہرست میں نہ دیکھ کر حیرت سے زیادہ دکھ ہوتا ہے۔

آر ڈی برمن

90 کی دہائی سے لے کر آج تک کسی نوجوان موسیقار سے ایک نام پوچھیں جس نے انہیں سب سے زیادہ متاثر کیا تو مشکل ہے آر ڈی برمن کے سوا کسی دوسرے کا نام آئے۔ 40، 50 اور 60 کی دہائی میں ایک سے بڑھ کے ایک موسیقار موجود تھا۔ ان سب موسیقاروں نے کلاسیکی اور فوک میوزک میں کم و بیش تمام امکانات کو سمیٹ لیا۔ ایس ڈی برمن کے سوا تمام بڑے نام یکسانیت اور تخلیقی بانجھ پن کا شکار ہونے لگے۔

70 کی دہائی میں آر ڈی برمن نے فریش ساؤنڈ اور نت نئے تجربات کے ذریعے فلمی سنگیت میں تراوت بھر دی۔ بپی لہری، لکشمی کانت پیارے لال اور راجیش روشن جیسے موسیقاروں کے بیچ رہتے ہوئے معیار پہ سمجھوتا نہ کرنا معمولی بات نہیں۔

‘گائیڈ‘ جیسی لازوال فلم پہ فلم فیئر ایوارڈ نہ جیتنے والے ایس ڈی برمن کا بیٹا بھی باپ کی طرح ایوارڈ جیتنے کے لیے لابنگ اور پیسے کے استعمال سے ناواقف رہا۔

1961 میں ’چھوٹے نواب‘ سے ابتدا کرنے والے آر ڈی برمن کو پہلا فلم فئیر جیتنے کے لیے 22 برس انتظار کرنا پڑا۔ آر ڈی برمن ایوارڈز کی دوڑ میں کتنے ہی پیچھے ہوں بقول انیل بسواس اپنے پِتا ایس ڈی برمن سمیت وہ کسی موسیقار سے کم نہیں۔

ساحر لدھیانوی

کسی انسان کا اپنی زندگی میں شہرت اور مقبولیت کی اس بلندی تک پہنچنا کہ وہ دیو مالا کا حصہ بن جائے ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ لیکن ساحر تو نام کی طرح جادوگر تھا۔

فلم انڈسٹری میں سب سے بڑا موسیقار کون تھا؟  ہدایت کار کون تھا؟ ان سوالوں پہ اتفاق بہت مشکل ہے لیکن آپ گیت نگار کی بات کریں تو اکثر کی رائے ساحر کے پلڑے میں جائے گی۔

ساحر شہرت اور مقبولیت ہی نہیں اپنے معیار میں بھی اس مقام پہ ہے جہاں کسی دوسرے کا احتمال ہی نہیں۔ آپ دل پہ ہاتھ رکھ کے خود ہی فیصلہ کر لیجئے کیا کوی پردیپ کا کوئی گیت آپ کے دل کی دھڑکن کا حصہ ہے؟ مجروح سلطان پوری نے مقبول گیت ضرور لکھے لیکن ساحر کے ساتھ کیا موازنہ۔ یہ دونوں تو ایوارڈ لے اڑے اور ساحر؟ خیر ساحر ایسی دیومالا شخصیت فانی انسانوں کی دنیا سے نکل کر لافانی ہو چکی ہے۔

بالی وڈ تو چھوڑیے، ہالی وڈ تک میں کون سا فنکار ہے جس پر اس کی زندگی ہی میں ایک چھوڑ دو دو فلمیں بنی ہوں؟

یہ ساحر ہی ہے کہ بالی وڈ جیسے فارمولا کلچر کے کھونٹے سے بندھی فلم انڈسٹری میں ساحر پر ’پیاسا‘ اور ’کبھی کبھی‘ جیسے دو شاندار فلمیں بنیں۔

جس کی جیب میں یہ انعام پڑا ہو، اسے دادا صاحب پھالکے یا کسی دوسرے ایوارڈ سے کیا فرق پڑتا ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی فلم