نمرتا کیس: سندھ ہائی کورٹ نے عدالتی تحقیقات کی اجازت دے دی

سندھ ہائی کورٹ نے لاڑکانہ میں بی بی آصفہ ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا کماری کی پراسرار موت کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

(نمرتا کماری/ ٹوئٹر)

سندھ ہائی کورٹ نے لاڑکانہ میں بی بی آصفہ ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا کماری کی پراسرار موت کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

سندھ حکومت نے نمرتا کیس میں جوڈیشل تحقیقات کے لیے سیشن جج لاڑکانہ کو خط لکھا تھا جس پر سیشن جج نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے جوڈیشل انکوائری کی اجازت طلب کی تھی جس کی منظوری دے دی گئی ہے۔

بی بی آصفہ ڈینٹل کالج کی فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا کماری کے جسم سے لیے گیے اجزا کی فرانزک اور بایوکیمیکل اینالیسز رپورٹ منگل کو جاری کی گئی تھی۔

سکھر لیبارٹری روہڑی کی جانب سے جاری کردہ نمرتا کماری کی کیمیائی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کے جسم سے کسی منشیات یا کسی نشہ آور اشیا اور زہریلی چیز کے اجزا نہیں ملے، اور نہ ہی کوئی ڈپریشن کی دوا ملی، جبکہ لاڑکانہ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ نمرتا کے کمرے سے نیند اور ڈپریشن کی ادویات بھی ملی تھیں۔

نمرتا کماری کے جسم سے لیے گئے خون کے نمونوں کی ہسٹرو پیتھالوجی رپورٹ بدھ کو متوقع ہے جبکہ بی بی آصفہ ڈینٹل کالج نمرتا کیس کے بعد مسلسل بند ہے اور کالج کے طلبہ مسلسل احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ نمرتا کیس کو حل کیا جائے۔

واضح رہے کہ 16 ستمبر کو لاڑکانہ کے بی بی آصفہ ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا کماری نازک حالت میں اپنے کمرے میں پائی گئیں جھنیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔

شمالی سندھ کے گھوٹکی ضلع کے میرپور ماتھیلو شہر کی رہائشی نمرتا کماری کی پراسرار موت کو پہلے دن سے متنازعہ بنا دیا گیا تھا۔ چانڈکا میڈیکل کالج انتظامیہ نے واقعے کو خودکشی قرار دینے کی کوشش کی لیکن مقتولہ کے بھائی ڈاکٹر وشال نے خودکشی کے امکان کو رد کیا۔ جبکہ پولیس نے اس کیس پر اپنا واضح موقف نہیں دیا۔

دوسری جانب پولیس نے نمرتا کیس میں ان کے ساتھ رہنے والی دو طلبات کا بیان ریکارڈ کرلیا ہے۔ ایس ایس پی لاڑکانہ مسعود بنگش نے چانڈکا میڈیکل کلج کے پرنسپل ڈی داس کی موجودگی میں نمرتا کے ساتھ ان کے کمرے میں رہنے والی دو طالبات گیتا اور سُکھاں سے بیان قلم بند کیے جس میں گیتا نے بتایا کہ وہ کمرے میں آنے سے پہلے نمرتا کو ان کے موبائل فون پر کال کر رہی تھیں مگر نمرتا نے فون اٹینڈ نہیں کیا جب وہ کمرے کے پاس آئیں تو کمرا اندر سے بند تھا اور ان کے کھٹکھٹانے پر کمرے کا دروازہ نہ کھُلا تو انھوں نے روشندان سے دیکھا تو نمرتا نیچے گری ہوئیں تھیں۔

’بعد میں دروازہ توڑ کر اندر داخل ہونے پر معلوم ہوا کہ نمرتا کو دوپٹے سے پھندہ لگا ہوا تھا گلے سے پھندا کاٹنے کے لیے پہلے قینچی استعمال کی گئی لیکن دوپٹہ نہیں کٹ سکا، گلے سے دوپٹہ دانتوں سے کھولا،اس وقت تک ان کی نبض چل رہی تھی اور جب سٹیتھو سکوپ سے چیک کیا تو ان کی دل کی دھڑکن بھی چل رہی تھی۔ بعد میں انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی موت واقع ہوگئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ واقعے کو ایک ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے باجود لاڑکانہ پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔ رابطہ کرنے پر ایس ایس پی مسعود بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نمرتا کیس کے اندراج میں دیر کی وجہ ان کا خاندان ہے جو بار بار کہنے کے باجود کیس درج کرانے نہیں آیا۔

’ہم نے بار بار ان کے والد اور بھائی کو کیس داخل کرانے کے لیے کہا مگر وہ ابھی تک کیس درج کرانے نہیں آئے اگر ورثا میں سے کوئی بھی آجائے تو ہم ایف آئی آر درج کریں گے'۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ نمرتا کیس میں سندھ بھر میں احتجاج ہو رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کیس کے خلاف آواز اُٹھ رہی ہے تو سٹیٹ کیس کے طور پر کیوں ایف آئی آر درج نہیں کی جارہی، تو ان کا کہنا تھا: ’اگر ہم یہ کیس سٹیٹ کیس کے طور پر درج کرتے ہیں اور کسی کو گرفتار کرتے ہیں اور وہ لوگ عدالت سے ضمانت لیتے ہیں تو عدالت مجھ سے پوچھی گی کہ نمرتا کے ورثا کہاں ہیں۔‘

واضح رہے کہ پولیس نمرتا کے ساتھ پڑھنے والے دو طلبہ مورو شہر کے رہائشی علی شان میمن اور لاڑکانہ کے رہائشی مہران ابڑو کو گرفتار کیا تھا جن سے تفتیش جاری ہے۔ بعد میں ایس ایس پی لاڑکانہ مسعود بنگش نے مقامی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’نمرتا کے دونوں گرفتار ملزمان سے مراسم تھے اور نمرتا کا اے ٹی ایم کارڈ مہران ابڑو کی تحویل سے ملا جس سے وہ لاکھوں روپے کی ٹرانزیکشن کرچکے ہیں۔‘

 پولیس نے نمرتا کے کمرے سے ان کا موبائل فون تحویل میں لے کر فرانزک اینالیسز کے لیے اسلام آباد میں ایف آئی اے کی لیبارٹری بھیجا تھا جس کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی۔

دوسری جانب جئے پال مہرچندانی نے کہا کہ وہ پولیس کی تفتیش سے مطمعن ہیں اور تمام رپورٹس آنے کے بعد ایف آئی آر درج کرائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ میری بیٹی ایک زندہ دل لڑکی تھی اور وہ کبھی خودکشی نہیں کرسکتی۔

انھوں نے مزید کہا کہ اب تک ان کے پاس ایک لاکھ سے زائد لوگ ہمدردی کرنے آچکے ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

نمرتا کماری کون ہیں؟

نمرتا کا پورا نام نمرتا کماری میرچندانی تھا اور ان کی عمر 22 سال تھی۔ بقول ان کے والد نمرتا کی ہلاکت کے ٹھیک دس دن بعد ان کو سرٹفیکیٹ ملنا تھا اور وہ ایک ڈاکٹر بن گئی ہوتیں۔

نمرتا کماری نے میٹرک اور انٹرمیڈیئٹ کی تعلیم میرپور ماتھیلو کے ایک نجی سکول اور کالج سے حاصل کی۔ بعد میں انھوں نے ایم بی بی ایس میں داخلہ کے لیے یونیورسٹی میں درخواست دی مگر ان کا داخلہ نہ ہوسکا تو انھوں نے بحریہ کالج کراچی میں اپلائی کیا اور ان کا داخلہ بحریہ کالج کراچی میں ایم بی بی ایس میں ہوگیا۔

مگر چھ ماہ بعد ان کو بی بی آصفہ ڈینٹل کالج لاڑکانہ سے فون آیا کہ ان کا داخلہ ہوگیا ہے اور وہ کبھی بھی آکر کلاس لے سکتی ہیں تو وہ بحریہ کالج کراچی سے لاڑکانہ آگئیں اور پڑھائی شروع کر دی۔

نمرتا کے بڑے بھائی بھی ڈاکٹر ہیں۔

سندھ میں اکثر ہندو خواتین ڈاکٹر بننے کو ترجیح دیتی ہیں اور اندازے کے مطابق سندھ کے محکمہ صحت میں خواتین ڈاکٹر میں 30 فیصد سے زائد ہندو خواتین ڈاکٹر ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان