اردن کی جوڈیشل کونسل کے جنرل سیکرٹریٹ نے پبلک پراسیکیوشن کی طرف سے 2024 میں سرکاری وفود سے الگ حج کا سفر کرنے والے اردنی شہریوں کے کیس کی تحقیقات کے ابتدائی نتائج کا انکشاف کیا ہے۔
اردن کی سرکاری خبررساں ادارے بترا نے 25 جون 2024 کو خبر دی ہے کہ وزارت خارجہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس کے نتیجے میں 99 حاجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
تحقیقات کے بعد پبلک پراسیکیوشن نے 28 افراد پر انسانی سمگلنگ کے قانون کے آرٹیکل 9/C/1، 2، اور 8 کے تحت انسانی سمگلنگ اور تعزیرات کی شق 417 کے تحت فراڈ کا الزام عائد کر دیا ہے۔
قانونی کارروائی کے تحت اب تک ایک خاتون سمیت 19 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، اور 10 دیگر پر سفری پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے پبلک استغاثہ نے انسانی سمگلنگ کے قانون کے آرٹیکل 15 کے تحت حج کی غیر مجاز سہولت فراہم کرنے والی کمپنیوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس کے علاوہ استغاثہ نے ان غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے حاصل ہونے والی مجرمانہ آمدنی کو بھی ضبط کر لیا ہے۔
خصوصی پبلک پراسیکیوشن متاثرین، دوران حج فوت ہونے والوں کے اہل خانہ اور متعلقہ حکام کے بیانات جمع کر کے اپنی تحقیقات جاری رکھے گی۔
تحقیقات میں سائبر کرائم یونٹ کے ساتھ بھی رابطہ بھی شامل ہو گا تاکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گردش کرنے والے متاثرین کے بیانات اور ویڈیوز کی نگرانی اور تجزیہ کیا جا سکے جو غیر مجاز حج آپریشنز سے متعلق ہیں۔
ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مالکان اور حج اور عمرہ سروس فراہم کرنے والوں سمیت افراد نے بہت سے اردنی شہریوں کے حج کے لیے مکہ مکرمہ کے غیر مجاز سفر کا اہتمام کیا۔
یہ سرگرمیاں مئی 2024 کے آغاز میں، یعنی سرکاری حج سیزن سے ایک ماہ قبل، وزٹ پرمٹ استعمال کرتے ہوئے ہوئیں جن پر سعودی قوانین کے تحت حج کی اجازت نہیں ہے۔
ان افراد نے جان بوجھ کر غلط اجازت نامے جاری کیے اور ان ذرائع سے حج پر جانے والے ہر شخص سے بھاری رقوم وصول کیں۔