اردن میں مقیم پشاور سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ پاکستانی طالب علم عبداللہ خواجہ نے مایو الیکٹرک یعنی پٹھوں سے کنٹرول کرنے والا مصنوعی بازو تیار کیا ہے، جو ان کے مطابق دیگر مصنوعی بازوؤں سے سستا ہے۔
اردن ہی میں پیدا ہونے اور وہیں سے تعلیم حاصل کرنے والے عبداللہ خواجہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں مصنوعی بازو بنانے کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں اس کا خیال ایک پناہ گزین کیمپ کے دورے کے دوران آیا تھا، جہاں وہ اپنے والد کے ساتھ کھانے پینے کی اشیا تقسیم کرنے کی غرض سے گئے تھے۔
عبداللہ نے بتایا کہ ’کیمپ میں دو تین لڑکے تھے جن کے بازو نہیں تھے۔ اسی وقت ہم نے سوچا کہ ان کے لیے مصنوعی بازو خریدے جائیں لیکن مارکیٹ میں قیمتوں کا معلوم کیا تو ایک بازو تین سے پانچ ہزار ڈالر (تقریباً 10 لاکھ روپے) میں مل رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں نے سوچنا شروع کیا کہ میرے پاس تھری ڈی ڈیزائننگ اور پرنٹنگ کا تجربہ موجود ہے، تو کیوں نہ خود سستا مصنوعی بازو بنایا جائے۔‘
اس کے بعد عبداللہ کے مطابق انہوں نے اردن میں ایک مقامی تنظیم کی مدد سے سکیچ بنانے اور تھری ڈی ڈیزائننگ کے کورسز کیے اور بازو کی ڈیزائننگ پر کام شروع کر دیا۔
بقول عبداللہ: ’میرا پہلا ڈیزائن تو ناکام ہوا لیکن تین چار کوششوں کے بعد ڈیزائن بن گیا، اسے اسمبل کیا اور یوں بازو بنا۔‘
عبداللہ نے بتایا کہ مارکیٹ میں موجود دوسرے مصنوعی بازو دھات، سٹیل یا ٹائٹینیئم سے بنائے جاتے ہیں لیکن انہوں نے زیادہ دیر تک پائیدار رہنے والا پلاسٹک استعمال کیا ہے۔
’دیگر مصنوعی بازو دماغ کے سینسر یا کیبل کے ذریعے سے کام کرتے ہیں جب کہ میرا بنایا ہوا مصنوعی بازو انسانی جسم میں موجود بازو کے پٹھوں میں سینسر لگا کے آپریٹ کیا جاتا ہے اور یہ تین کلو گرام تک وزن اٹھا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میرا بنایا ہوا مصنوعی بازو مارکیٹ میں موجود دیگر مصنوعی بازؤں سے سستا ہے اور اسے پٹھوں سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔‘
عبداللہ کے تیار کردہ مصنوعی بازو پر محض ڈیڑھ لاکھ روپے تک خرچہ آیا۔
پراستھیٹک ریہب کلینک کے مطابق دنیا میں دو قسم کے مصنوعی بازو دستیاب ہیں، جن میں سے ایک کو مکینیکل اور دوسری قسم کو مایو الیکٹرک کہا جاتا ہے۔
ٍمکینیکل پراستھیٹک بازو کیبل اور جسم کی حرکت کے ذریعے آپریٹ کیا جاتا ہے، جبکہ مایو الیکٹرک مصنوعی بازو جلد اور پٹھوں کے ساتھ الیکٹروڈ نصب کر کے آپریٹ ہوتا ہے، جس میں ایک الیکٹرک موٹر نصب کی جاتی ہے۔
عبداللہ اپنے تیار کردہ مصنوعی بازو پر مزید کام کر کے اسے کمرشل استعمال کے قابل بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔