لاہور: انسانی اعضا کی سمگلنگ میں ملوث گروہ بے نقاب

لڑکے نے ہمیں بتایا کہ جب اس کی آنکھ کھلی اس کے ساتھ والے سٹریچر پر ایک غیر ملکی شخص تھا: ترجمان

28 فروری 2017 کو سپین میں ٹرانسپلانٹ کا آپریشن تھیٹر (اے ایف پی)

پاکستان میں پولیس نے انسانی اعضا کی سمگلنگ کرنے والے ایک گروہ کو اس وقت بے نقاب کیا جب ایک 14 سالہ لاپتہ لڑکا خفیہ نجی لیبارٹری سے ملا جس کا گردہ نکال لیا گیا تھا۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ گروہ نوجوان، کمزور متاثرین کو ان کے اعضا نکالنے سے پہلے منافع بخش کام اور بڑی رقوم، خاص طور پر گردے کو نو لاکھ روپے تک فروخت کرنے کا لالچ دیتا تھا۔

پنجاب پولیس کے ترجمان ریحان انجم نے جمعہ کو بتایا کہ ’شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی ہمیں معلوم ہوا کہ بچے کی گمشدگی کے پیچھے اعضا کی سمگلنگ کا آپریشن تھا۔‘

چھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ترجمان نے کہا، ’لڑکے نے ہمیں بتایا کہ جب اس کی آنکھ کھلی اس کے ساتھ والے سٹریچر پر ایک غیر ملکی شخص تھا، اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ زیادہ تر گاہک دوسرے ممالک سے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گینگ کے متاثرین کو دارالحکومت اسلام آباد کے قریب شہر راولپنڈی کے گیریژن میں اعضا کی خفیہ پیوندکاری کی سرجری کے لیے استعمال ہونے والی میڈیکل ٹیسٹنگ لیب میں لے جایا گیا تھا۔

بچے کے والد نے لاہور میں اے ایف پی کو بتایا، ’میں شکر گزار ہوں کہ یہ پولیس کو زندہ مل گیا، ورنہ انہوں نے اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ آپریشن میں شامل ڈاکٹروں اور سرجنوں کا پتہ نہیں چل سکا۔

پاکستان نے 2010 میں انسانی اعضا کی تجارت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے 10 سال تک قید اور جرمانوں کا نفاذ کیا تھا تاکہ استحصالی ذرائع سے میڈل مین کے ذریعہ امیر بیرون ملک مقیم گاہکوں کو اعضا کی فروخت روکی جا سکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت