دریائے نیلم کے کنارے بنے نیم پختہ واکنگ ٹریک پر نصب آہنی بینچ پر ایک نوجوان سیاح جوڑا اپنے سال ڈیڑھ سال کے بچے کو لیے بیٹھا ہے۔ خاتون تصاویر بنانے کے ارادے سے موبائل فون نکالتی ہیں مگر ہچکچاہٹ کے باعث دوبارہ پرس میں ڈال لیتی ہیں۔ یہ فیصل آباد سے آئی ہوئی ریحانہ اور ان کے شوہر جمیل ہیں جو چھٹیاں گزارنے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وادی نیلم کے علاقے کیرن آئے ہیں۔
میرا ان کے پاس سے گزر ہوا تو جمیل نے پوچھا: ’بھائی جان تصویر بناؤں، سرحد پار سے گولی تو نہیں مار دیں گے؟‘
مجھے تصویریں بناتے دیکھ کر انہیں بھی حوصلہ ہوا اور ریحانہ نے پہلے دو تین سیلفیاں بنائیں اور پھر مجھے کہنے لگیں، ’بھائی جان ہماری ایک فوٹو تو بنا دیں۔‘
کیرن کا گاؤں لائن آف کنٹرول کے آر پار تقسیم ہے۔ اس کا آدھا حصہ پاکستان کے زیر انتظام جبکہ باقی کا آدھا حصہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہے۔
ریحانہ اور جمیل سے کچھ ہی فاصلے پر نصب ایک بڑی چھتری کے نیچے تین چار مقامی نوجوان سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔ ان کے عقب میں سرکاری گیسٹ ہاؤس بالکل ویران لگ رہا ہے اور صحن میں نصب جھولوں پر کھیلنے والے بچے بھی آج نظر نہیں آ رہے۔
اس گیسٹ ہاؤس میں موجود محکمہ سیاحت کے ایک اہلکار سید ممتاز شاہ بتاتے ہیں کہ اس سال بہت کم سیاح کیرن میں آئے ہیں۔’گرمیوں کے موسم میں تو یہاں پاؤں رکھنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔ مگر اس بار حالت آپ کے سامنے ہے۔ جب سے حالات خراب ہوئے ہیں سیاح بالکل نہیں آئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاحت کی صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس سال وادی نیلم میں سیاحوں کی آمد میں کمی رہی اور سیاحت کے کاروبار کو خسارے کا سامنا رہا ہے۔ وہ اس کی وجہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور قدرتی آفات کے دوران میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ کردار کو سمجھتے ہیں۔
گیسٹ ہاؤس مالکان کی تنظیم کے عہدیدار اور کیرن میں ایک نجی گیسٹ ہاؤس کے مالک راجہ افتخار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمارا تو پورا سیزن تباہ ہو گیا۔ پہلے فروری میں بالاکوٹ والا واقعہ ہوا تو سیاح ڈر گئے۔ حالات تھوڑے بہت بہتر ہوئے تو لیسواہ میں سیلاب آگیا، لوگ سمجھے پوری وادی نیلم تباہ ہوگئی۔ پانچ اگست کے بعد تو حالات بالکل بدل گئے۔‘
پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے جموں وکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد ایل او سی پر جاری کشیدگی اور وقتاً فوقتاً فائرنگ کے تبادلے کی وجہ سے سیاح خوفزدہ ہیں اور اس علاقے میں جانے سے کتراتے ہیں۔
راجہ افتخار اس صورتحال کا ذمہ دار میڈیا کو قرار دے رہے ہیں۔ ’میڈیا میں ایسی خبریں چل رہی ہیں کہ جیسے پورا علاقہ سیلاب سے تباہ ہو گیا ہو یا ساری وادی میں فائرنگ ہو رہی ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں۔ یہاں بھی لوگ رہتے ہیں۔ ہم بھی تو انسان ہیں۔‘
جلال الدین اکبر ریٹائرڈ معلم ہیں اور اب شاہ کوٹ کے قریب ایک ریستوران چلاتے ہیں۔ راجہ افتخار کی طرح وہ بھی اس صورت حال کا ذمہ دار بڑی حد تک میڈیا کو سمجھتے ہیں۔ ’یہ درست ہے کہ ایل او سی پر گولہ باری بھی ہوتی ہے، سیلاب بھی آیا۔ مگر سیلاب سے ایک گاؤں متاثر ہوا اور گولہ باری بھی مخصوص علاقوں میں ہوتی ہے اور وہ بھی کبھی کبھار۔ میڈیا صورت حال کو ایسا بنا کر پیش کر رہا ہے جیسے یہ سارا علاوہ تباہی کا شکار ہے۔ اب اس سے جو نقصان ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘
وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ سالوں میں گرمیوں کے موسم میں روزانہ سینکڑوں سیاح یہاں کھانا کھانے اور دریا کنارے تفریح کی غرض سے رکتے تھے مگر اس سال کبھی کبھار اِکا دُکا گاڑی آ جاتی ہے۔ اس مرتبہ تو ریستوران کے اخراجات پورے ہونا بھی مشکل ہے۔
2003 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر معاہدے کے بعد وادی نیلم میں سیاحت کی صنعت کو فروغ ملا اور مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس صنعت سے وابستہ ہوئی۔
محکمہ سیاحت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت وادی نیلم میں 500 سے زائد چھوٹے بڑے گیسٹ ہاؤس قائم ہیں۔
2015 تک سالانہ پانچ لاکھ سیاح اس علاقے میں آتے تھے تاہم 2016 سے ایل او سی پر جاری کشیدگی کی وجہ سے سیاحوں کی آمد میں کافی کمی آئی۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق سال 2018 میں 41 ہزار 608 گاڑیاں لگ بھگ دو لاکھ 51 ہزار 670 سیاحوں کو لے کر وادی نیلم میں داخل ہوئیں جبکہ 2019 کے نو ماہ میں اب تک 28 ہزار 628 گاڑیاں ایک لاکھ 70 ہزار 856 سیاح نیلم ویلی میں داخل ہوئے جو گذشتہ سال کی نسبت لگ بھگ 33 فیصد کم ہے۔
راجہ افتخار کے بقول سیاحوں کی آمد میں کمی کی وجہ سے سینکڑوں خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ ’جن لوگوں کی آمدن کا دارومدار سیاحت پر تھا وہ تو بالکل بے روزگار ہو گئے ہیں۔ گیسٹ ہاؤس کے مالکان کرایہ نہیں ادا کرسکتے، ملازمین کو تنخواہیں کہاں سے دیں گے؟‘
محکمہ سیاحت بھی سیاحوں کی آمد میں کمی کی وجہ سے پریشان ہے۔ ایک سرکاری اہلکار خواجہ رئیس نے بتایا: ’ہم تو اپنی طرف سے کوشش کر رہے ہیں مگر سیاح فائرنگ کے خطرے کے باعث نیلم ویلی جانے سے کتراتے ہیں۔‘
محکمہ سیاحت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحت کے فروغ کے لیے تین روزہ پیرا گلائیڈنگ فیسٹیول کا انتظام کر رکھا تھا مگر میرپور میں آنے والے زلزلے کے باعث عین وقت پر اس فیسٹیول کو منسوخ کرنا پڑا اور پاکستان سمیت کئی ملکوں کے درجنوں پیرا گلائیڈرز کو واپس جانا پڑا۔