آپ کو یاد ہو گا میں نے اپنے پچھلے کالم میں بابر اعظم کے آؤٹ آف فارم ہونے کا ذکر کیا تھا لیکن ان چند دنوں میں بابر اعظم پر ہی کیا موقوف، بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز پوری پاکستانی ٹیم پر بہت بھاری گزری ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم جس مایوس کن انداز میں بنگلہ دیش سے دونوں ٹیسٹ میچز ہاری ہے اس سے شائقین کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ یہ شکست ان ناکامیوں کا تسلسل ہے جو ہم گذشتہ ایک سال سے دیکھتے آ رہے ہیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:
پاکستانی ٹیم گذشتہ سال پہلی مرتبہ افغانستان سے نہ صرف دو طرفہ سیریز ہاری بلکہ اسے ورلڈ کپ میں بھی پہلی بار شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے بعد پاکستانی ٹیم کو آئرلینڈ نے پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں شکست دی اور رہی سہی کسر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں امریکہ جیسی نئی ٹیم نے پوری کر دی۔
جہاں تک ہوم سیریز کا تعلق ہے تو پاکستانی ٹیم 2020 کے بعد سے اپنے ہوم گراؤنڈ پر کوئی ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
آخری ہوم سیریز اس نے جنوبی افریقہ کے خلاف جیتی تھی جس کے بعد اسے آسٹریلیا سے دو صفر اور انگلینڈ کے خلاف تین صفر سے شکست ہوئی جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف دونوں ٹیسٹ ڈرا ہو گئے تھے۔
شان مسعود نے پہلی بار کپتانی ملنے کے بعد آسٹریلیا کے دورے میں تین صفر کی شکست کے باوجود قدرے بہتر کپتانی کی تھی جس سے یہ امید بندھی تھی کہ وہ مستقبل میں اس ذمہ داری کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
لیکن بنگلہ دیش کے خلاف متعدد مواقعوں پر وہ درست فیصلے کرنے سے قاصر رہے جن میں بولنگ میں تبدیلیوں اور فیلڈ پلیسنگ سے متعلق فیصلے نمایاں تھے۔
کپتان اگر بیٹسمین ہے تو وہ جب تک خود قابل ذکر بیٹنگ نہیں کرتا اس کے لیے پوری ٹیم کو متحرک کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
صرف ایک مثال انگلینڈ کے مائیک بریرلی کی موجود ہے جو بڑے بیٹسمین نہیں تھے لیکن صرف اپنی ذہانت کے بل پر وہ ایک کامیاب کپتان ثابت ہوئے تھے اور انہیں اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں سے کام لینا بھی خوب آتا تھا۔
شان مسعود لگاتار دو ٹیسٹ سیریز میں پانچ ٹیسٹ ہار چکے ہیں۔ اس سے قبل انتخاب عالم 70 کی دہائی میں لگاتار تین ٹیسٹ سیریز ( نیوزی لینڈ ایک صفر، انگلینڈ ایک صفر اور آسٹریلیا تین صفر) ہارے تھے۔
اس نتیجے کے بعد اب دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا اعتماد شان مسعود پر کس حد تک برقرار رہتا ہے کیونکہ پاکستان کو اگلے ماہ انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف ہوم سیریز کے تین ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں۔
اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کی تمام تر توجہ چیمپئنز ون ڈے کپ پر مرکوز ہے جس کے لیے اس نے پانچ ٹیموں کے لیے مینٹور بھی مقرر کردیے ہیں جن میں سے تین وقار یونس مصباح الحق اور ثقلین مشتاق ماضی میں پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ بھی رہ چکے ہیں۔
جبکہ شعیب ملک اور سرفراز احمد پاکستانی ٹیم کی کپتانی کر چکے ہیں۔ چونکہ آئندہ سال فروری میں پاکستان کو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے اس تناظر میں یہ چیمپئنز ون ڈے کپ اہمیت کا حامل ہو گا۔
جس انداز سے پاکستانی کرکٹ ٹیم پچھلے کچھ عرصے سے ٹیسٹ کرکٹ میں اچھے نتائج دینے میں ناکام رہی ہے لہذا پاکستان کرکٹ بورڈ کو ریڈ بال کرکٹ پر بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام بڑے کرکٹرز کو ڈومیسٹک سیزن میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا پابند کیا جائے۔
عام طور پر ہمارے یہاں فرسٹ کلاس کرکٹ اسی وقت ہو رہی ہوتی ہے جب انٹرنیشنل کرکٹ بھی کھیلی جا رہی ہوتی ہے۔
لیکن اس کے باوجود ماضی میں ایسا بھی ہو چکا ہے کہ بڑے کھلاڑی عام طور پر ڈومیسٹک کرکٹ کو خاطر میں نہیں لاتے تھے خاص کر فرسٹ کلاس کرکٹ میں وہ برائے نام ہی نظر آتے رہے ہیں۔
یہاں صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہو گا کہ بڑے کرکٹرز اپنی انٹرنیشنل کرکٹ کی مصروفیات کے سبب ڈومیسٹک کرکٹ نہیں کھیل پاتے۔
اگر وہ اپنی انٹرنیشنل کرکٹ کی مصروفیات میں سے وقت نکال کر دنیا کی مختلف ٹی ٹوئنٹی لیگز میں کھیلنے کے لیے جا سکتے ہیں تو پھر انہیں اپنے ہی ملک میں کھیلی جانے والی فرسٹ کلاس کرکٹ کو بھی عزت دینی ہوگی کیونکہ اسی فرسٹ کلاس کرکٹ میں پرفارم کر کے ہی وہ پاکستانی ٹیم تک پہنچتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے نقطہ نظر سے تشویش کی بات یہ ہے کہ دو بڑے نام بابراعظم اور شاہین شاہ آفریدی فارم میں نہیں ہیں۔
ان دونوں کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ خصوصاً فرسٹ کلاس میچز کھیلنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنی فارم اور ردھم حاصل کر سکیں۔
بابراعظم نے آخری مرتبہ پاکستان میں ڈومیسٹک فرسٹ کلاس میچ دسمبر 2019 میں کھیلا تھا جو قائداعظم ٹرافی کا فائنل تھا جس میں وہ سینٹرل پنجاب کی طرف سے ناردن کے خلاف کھیلے تھے۔
اس کے بعد سے انہوں نے مزید دو ہی فرسٹ کلاس میچزکھیلے ہیں جن میں سے ایک 2020 میں انگلینڈ کے دورے میں پاکستان وائٹس اور پاکستان گرینز کے درمیان ڈربی میں کھیلا گیا میچ تھا اور پھر گذشتہ سال آسٹریلیا کے دورے میں وہ آسٹریلین پرائم منسٹر الیون کے خلاف کھیلے تھے۔
یہ درست ہے کہ اس عرصے میں ہمارے کرکٹرز ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں مصروف رہے ہیں لیکن جب تک آپ چار یا پانچ روز کی فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کھیلتے اس وقت تک آپ ٹیسٹ کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہو سکتے۔
ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ یونس خان اور مصباح الحق غیرملکی دوروں سے واپس آتے ہی ڈومیسٹک کرکٹ کا میچ کھیلنے پہنچ جایا کرتے تھے یہ ان کی کمٹمنٹ ہوا کرتی تھی لیکن آج کل کے کھلاڑیوں کی کمٹمنٹ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ہو گئی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے کرکٹرز کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرتا رہا ہے۔ جب بات سینٹرل کنٹریکٹ کی آتی ہے تو یہ کرکٹرز معاوضوں میں اضافے کے لیے پیش پیش ہوتے ہیں لیکن انہیں اپنی پرفارمنس میں اضافے کے لیے بھی سوچنا ہوگا۔
اگر ہم شاہین شاہ آفریدی کی بات کریں تو انہوں نے ابھی تک مجموعی طور پر 39 فرسٹ کلاس میچز کھیل رکھے ہیں۔
جن میں سے 30 ٹیسٹ میچز ہیں یعنی ان 30 ٹیسٹ میچوں کو چھوڑ کر وہ صرف نو فرسٹ کلاس میچز کھیل پائے ہیں ان نو میں سے تین میچز انگلش کاؤنٹی چیمپئن شپ کے ہیں اور تین میچز ان کے ٹیسٹ کرکٹ میں آنے سے پہلے کے ہیں۔
ان کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں مجموعی وکٹوں کی تعداد 155 ہے جن میں سے115 وکٹیں ٹیسٹ میں ہیں۔ یعنی بقیہ فرسٹ کلاس وکٹیں صرف 40 ہیں اس کا سبب ان کا برائے نام فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بھی آخری بار اکتوبر 2019 میں ڈومیسٹک فرسٹ کلاس میچ کھیلا تھا۔ اپنے پورے کریئر میں وہ بھی انٹرنیشنل کرکٹ میں زیادہ مصروف رہے ہیں اور کچھ عرصہ وہ انجری کی وجہ سے کرکٹ سے دور بھی رہے ۔
بابراعظم آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے بعد براہ راست بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلے۔ اس دوران وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ اس وقت ہمارے یہاں قائداعظم ٹرافی یا کوئی دوسرا فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ نہیں ہو رہا ہے لیکن بابراعظم کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے بڑا سکور نہیں کر پائے ہیں۔
لہذا وہ بورڈ سے درخواست کر کے بنگلہ دیش اے کے خلاف چار روزہ میچ کھیل کر ٹیسٹ سیریز کے لیے خود کو تیار کر سکتے تھے۔
جیسا کہ بنگلہ دیش کی ٹیسٹ ٹیم کے چند کھلاڑیوں نے سیریز سے قبل بنگلہ دیش اے کی طرف سے پاکستان شاہینز کے خلاف پہلا چار روزہ میچ کھیل کر ٹیسٹ سیریز کے لیے خود کو تیار کیا۔
بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی یہ شکست 1999 کے عالمی کپ کی شکست سے بھی زیادہ گہری ہے اور اب کوئی بھی وسیم اکرم کی طرح ہرگز یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ ہم اپنے بھائیوں سے ہارے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔