پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پانچ کم عمر بچیوں کے ریپ اور قابل اعتراض تصاویر بنانے کے الزام میں پولیس نے ایک سرکاری سکول کے کینٹین چلانے والے شخص محمد عمران کو گرفتار کر لیا۔
تھانہ صدر گوجرانوالہ کی پولیس نے تھیڑی سانسی کے علاقے میں واقع گورنمنٹ نان فارمل ایجوکیشن سکول کی پانچ بچیوں کے ریپ اور ہراساں کرنے کے الزامات پر مقدمات درج کیے ہیں۔
صوبائی محکمہ لٹریسی کے تحت ساجدہ عمران نامی خاتون اپنے گھر میں سکول چلاتی ہیں، جس میں طالبات کو پانچویں تک تعلیم دی جاتی ہے۔
ایف آئی آر میں درج تفصیلات کے مطابق ملزم گذشتہ کئی سالوں سے مختلف بچیوں کو ریپ کا نشانہ بنا چکا ہے۔ متاثرہ بچیوں کی عمریں 11 سے 14 سال تک بتائی گئی ہیں۔
سٹی پولیس افسر (سی پی او) ایاز سلیم نے بتایا کہ تین بچیوں کے ریپ کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ دو کے ریپ کی کوشش کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ریپ سمیت دیگر دفعات کے تحت والدین کی درخواست پر مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔
’مرکزی ملزم کو گرفتار کرکے موبائل سے برہنہ تصاویر اور ویڈیوز برآمد کرلی گئی ہیں۔ مزید کارروائی کے لیے تمام تر شواہد اکھٹے کر کے لیباٹری بھجوا دیے گئے ہیں۔ کیس کی میرٹ پر تفتیش کر کے ملزم کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔‘
اس حوالے سے تفتیشی افسر محمد شفیق نے بتایا کہ ’سکول ٹیچر کے خاوند عمران کو متاثرہ بچیوں کے والدین کی درخواست پر پانچ مقدمات درج کر کے گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزم نے اعتراف جرم بھی کر لیا۔
’پانچ بچیوں کے طبی معائنے میں دو بچیوں کا ریپ ثابت ہو چکا ہے، جبکہ تفتیش میں معلوم ہوا کہ تین بچیوں کو برہنہ کر کے ویڈیو بنائی گئی ہیں۔‘
پولیس نے سکول کو بھی سیل کر دیا جبکہ مزید متاثرہ بچیوں کے حوالے سے بھی تحقیقات جاری ہیں۔
ایک متاثرہ بچی کے والد نے کہا کہ ’میری 13 سالہ بیٹی کو چھ ماہ پہلے اس سکول میں داخلہ دلایا گیا تھا۔ گذشتہ روز بچی نے سکول جانے سے انکار کر دیا جب میں نے وجہ پوچھی تو اس نے روتے ہوئے کہا کہ ہماری ٹیچر کا خاوند عمران، جو سکول میں کینٹین چلاتا ہے، وہ مجھ سے تین چار بار ریپ کرچکا ہے اور مسلسل ہراساں کرتا ہے۔‘
متاثرہ بچی کے والد نے کہا کہ ’بیٹی نے بتایا کہ وہ صرف اس سے نہیں بلکہ دیگر لڑکیوں سے بھی زیادتی کرتا ہے۔ سکول کی اوپر والی منزل پر کلاسیں بنائی گئی ہیں جبکہ نچلے حصے میں ان کی رہائش ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’عمران کینٹین بھی چلاتا ہے اور نچلے حصے میں بچیوں کو ہوس کا نشانہ بناتا تھا۔ اس نے بچیوں کی ویڈیوز بھی بنائیں اور دھمکیاں دیں کہ اگر کسی نے گھر والوں کو بتایا تو وہ ویڈیوز دکھا دے گا۔‘
متاثرہ بچی کے والد نے بتایا کہ ’میں محنت مزدوری کرتا ہوں۔ تین بچے ہیں، اس سکول میں 50 روپے ماہانہ سکول فیس جبکہ 200 روپے ماہانہ ٹیوشن فیس دے کر بچی کو تعلیم دلوا رہا تھا۔
’ہم پولیس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ملزم کو عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ کسی اور بچی کی زندگی تباہ نہ کر سکے۔‘
پنجاب میں محکمہ داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک سال میں 854 کم عمر بچے اور بچیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ اعداد وشمار وہ ہیں جو واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ اس طرح کے کئی واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔
محکمہ تعلیم کے ریکارڈ کے مطابق لٹریسی اینڈ نان فارمل سکول، جو کہ پنجاب کے تمام اضلاع میں موجود ہیں، ان کی تعداد 16 سو ہے۔
یہاں معمولی فیس میں وہ بچے زیر تعلیم ہیں جو کسی بھی وجہ سے فارمل سکولز میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔
رواں سال حکومت پنجاب نے سینٹرل پنجاب نان فارمل ایجوکیشن پروجیکٹ کے لیے 57 کروڑ، جنوبی پنجاب نان فارمل ایجوکیشن پروجیکٹ کے لیے ایک ارب 31 کروڑ، شمالی پنجاب نان فارمل ایجوکیشنل پروجیکٹ کے لیے 89 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔