ڈی جی خان یونیورسٹی: مبینہ جنسی زیادتی کرنے والے اساتذہ کی تلاش جاری

تفتیشی افسر طاہر سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ لڑکی ثنا ارشاد نے منگل کو درخواست دی جس پر مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی میں مبینہ زیادتی کا شکار ہونے والی طالبہ کی جانب سے واقعے کی ایف آئی آر درج کروا دی گئی ہے (ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی/ ویب سائٹ)

صوبہ پنجاب میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور فیصل آباد یونیورسٹی میں طالبات کی جانب سے اساتذہ کے خلاف ہراسانی کے الزامات سامنے آنے کے بعد اب ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی کی ایک طالبہ سے دو اساتذہ کی مبینہ جنسی زیادتی کی ویڈیو سوشل میڈیا گردش کر رہی ہے۔

ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی میں مبینہ زیادتی کا شکار ہونے والی طالبہ کی جانب سے واقعے کی ایف آئی آر درج کروا دی گئی ہے۔

اگرچہ یہ واقعہ چار ماہ پہلے پیش آیا تھا مگر پولیس کو درخواست اب دی گئی ہے جس کے بعد پولیس کے مطابق مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے سربراہ رسول بخش رئیس کے بقول تمام جامعات میں ڈسپلن کمیٹیاں موجود ہیں اور اس طرح کے واقعات میں شکایات پر کارروائیاں بھی کی جاتی ہیں لیکن معاشروں میں اس طرح کے واقعات کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں ہوتا۔

ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی میں واقعہ کیسے پیش آیا؟

ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کی طالبہ ثنا ارشاد کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کی ایک ویڈیو حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

اس حوالے سے ثنا ارشاد کی درخواست پر ڈیرہ غازی خان کے تھانہ گدائی میں منگل آٹھ اگست کو مقدمہ درج کیا گیا، جس میں ثنا نے موقف اختیار کیا ہے کہ ’انہیں مئی کے مہینے میں امتحانات کے بعد ان کی کلاس فیلو طاہرہ لال کا فون آیا کہ ان کے قریبی ہوٹل میں پیپرز چیک ہو رہے ہیں۔‘

ثنا کے مطابق ان کی ساتھی طالبہ نے ان سے کہا کہ ’نمبر لگوانے ہیں تو آجاؤ میں تمھارے اچھے نمبر لگوا دوں گی۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ثنا کا کہنا ہے کہ ’میں اس جھانسے میں آگئی۔‘

ثنا کے بقول ’جب وہ رمضان ہوٹل پہنچیں تو وہاں طاہرہ لال اور فزکس ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر خالد خٹک پہلے سے موجود تھے۔ کچھ دیر بعد وہاں ہمارے شعبہ فزکس کے سربراہ ڈاکٹر ظفر وزیر بھی پہنچ گئے۔‘

’انہوں نے ڈاکٹر خالد خٹک سے بوتل اور نمکو وغیرہ منگوائی اور ان دونوں کو کسی کام کے بہانے باہر بھیج دیا۔ انہوں نے مجھے بوتل پلائی جس میں نشہ آور چیز ملی تھی جس سے میں بے ہوش ہوگئی۔‘

ثنا کے مطابق: ’ڈاکٹر ظفر وزیر نے ساری رات مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ جب صبح ہوش آیا تو روتے ہوئے زبردستی کمرے سے نکلی اور رکشہ لے کر گھر چلی گئی۔ لیکن ڈاکٹر ظفر نے دوبارہ بلانا شروع کردیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’انکار پر میری چھوٹی بہن جو شعبہ فزکس میں ہی زیر تعلیم ہیں ان کے ساتھ زیادتی کی دھمکی دی تو سارا واقعہ اپنے والد کو بتا دیا۔‘

یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس کی کارروائی کہاں تک پہنچی؟

ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی کے ترجمان شعیب رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ واقعہ مئی میں پیش آیا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے دونوں پروفیسرز کے خلاف انکوائری کروائی اور انکوائری کمیٹی نے تحقیقات کے بعد دونوں پروفیسرز کے خلاف الزام درست قرار دیا۔‘

شعیب رضا کے مطابق ’انتظامیہ نے قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے دونوں اساتذہ کو معطل کر دیا اور ملوث طالبہ طاہرہ لال کو بھی نکال دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے بعد مقامی صحافیوں نے خبریں لگائی کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے جرم کے مطابق کارروائی نہیں کی جبکہ انہوں نے متاثرہ لڑکی کا ویڈیو بیان لیا ہے جو وائرل کر دیا جائے گا اور انہوں نے کچھ عرصہ بعد یہ ویڈیو وائرل کر دی۔‘

ترجمان یونیورسٹی کے مطابق: ’ہماری انتظامیہ قانون کے مطابق جو کر سکتی تھی وہ کیا، لیکن اب آئی جی پنجاب کے نوٹس لینے پر پولیس نے لڑکی کے والدین سے رابطہ کر کے فوجداری کارروائی شروع کر دی ہے۔‘

واقعے کے تفتیشی افسر طاہر سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’متاثرہ لڑکی ثنا ارشاد نے ہمیں گذشتہ روز درخواست دی جس پر مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔‘

طاہر سلیم نے بتایا کہ ’ملزمان کی رہائش ڈیرہ غازی خان سے باہر کی ہے اس لیے موبائل لوکیشن سے ان کی تلاش کی جا رہی ہے۔ گھروں پر بھی چھاپے مارے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوسکا ہے۔‘

پولیس افسرطاہر سلیم کے مطابق ’اس معاملے کی ابتدائی معلومات اور بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ لڑکی کا طبی معائنہ بھی کرایا گیا ہے جس کی رپورٹ آنا باقی ہے۔‘

’لڑکی کے بیانات کے مطابق اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ مگر ہم جب تک تفتیش مکمل کر کے عدالت میں جمع نہیں کرواتے، جرم کے بارے میں حتمی رائے نہیں دے سکتے۔‘

ماہر تعلیم رسول بخش رئیس کا تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے واقعات کے بارے کہنا ہے کہ ’تمام تعلیمی اداروں میں اس معاملے پر کمیٹیاں موجود ہیں جو قانونی کارروائی لازم کرتی ہیں۔ لیکن بعض اوقات طالبات کو یونیورسٹیوں کی اندرونی سیاست کے لیے بھی استعمال کرنے کے حقائق سامنے آتے رہے رہیں۔‘

’مگر جہاں واقعی اس طرح کی حرکت ہوتی ہے کارروائی لازم ہے۔ البتہ ہر معاشرے میں اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی قانون موجود ہیں جن کے مطابق کارروائی بھی ہوتی ہے۔ تاہم طلبہ و طالبات کو بھی اپنی حفاظت خود یقینی بنانے پر دھیان دینا چاہیے۔‘   

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس