سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعے کو ملک کے انسداد بدعنوانی (نیب) قوانین میں ترامیم کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے، نیب قوانین میں حکومتی ترامیم بحال کر دی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے اس مقدمے کا فیصلہ رواں برس چھ جون کو محفوظ کیا تھا، جو آج (جمعے کو) سنایا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپیلوں پر فیصلہ پانچ صفر سے سنایا، جس میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹس تحریر کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پرائیویٹ ملزمان کی اپیل پر ترامیم بحال کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وفاقی حکومت کا استحقاق نہیں تھا کہ انٹرا کورٹ اپیل دائر کرے، اپیل صرف متاثرہ فریق ہی دائر کر سکتا ہے۔‘
16 صفحات پر مشتمل چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’بانی پی ٹی آئی ثابت نہیں کرسکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’نیب ترامیم کو خلاف آئین ثابت نہیں کیا جا سکا۔‘ اور یہ کہ ’سپریم کورٹ کو قانون سازی کو ہر ممکن صورت میں برقرار رکھنا چاہیے۔‘
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ’آئین میں عدلیہ اور مقننہ کا کردار واضح ہے۔ عدلیہ اور مقننہ کو ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت پر نہایت احتیاط کرنی چاہیے۔‘
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’آئین میں دیے گئے فرائض کی انجام دہی کے دوران بہتر ہے کہ ادارے عوام کی خدمت کریں۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس اور دیگر ججز ’پارلیمنٹ کے دربان نہیں ہو سکتے۔‘
نیب ترامیم کیس کا فیصلہ کیا تھا؟
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت سابق اتحادی حکومت کی متعارف کردہ نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا، جس کی سماعت سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے کی تھی۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ گذشتہ برس 15 ستمبر کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل جاری کیا تھا، جس میں عدالت نے بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترمیم کالعدم قرار دے دی تھی۔
اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں۔
جبکہ عدالت نے 50 کروڑ روپے کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کرکے انہیں احتساب عدالت میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم جاری کیا تھا۔
یہ فیصلہ تین رکنی بینچ نے سنایا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا تھا جبکہ تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
نیب ترامیم کا فیصلہ سپریم کورٹ میں کب چیلنج ہوا؟
گذشتہ برس 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی، جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
اپیل میں وفاق، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بنایا گیا۔
اس سے قبل 15 اکتوبر کو درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے بھی پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
پی ڈی ایم حکومت نے نیب میں کیا ترامیم کی تھیں؟
پی ڈی ایم حکومت کے دوران نیب کے قانون میں 27 ترامیم کی گئی تھیں۔ نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔
نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیب ترمیمی بل کے تحت احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا گیا تھا جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کی جا سکتی تھی۔
نیب قانون کے سیکشن 16 میں بھی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت جہاں جرم کا ارتکاب ہو گا، اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چل سکے گا۔
بل میں سیکشن 19 ای میں بھی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت نیب کو ہائی کورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔
نیب ترمیمی بل کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی، جبکہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکیں۔
نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔