سپریم کورٹ آف پاکستان نے منگل کو نیب ترامیم کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران احتساب عدالت کو فیصلہ کرنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’نیب ترامیم کیس کے فیصلے کو معطل نہیں کریں گے۔ صرف احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکیں گے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے منگل کو اس کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔
لارجر بیچ کے سامنے پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’نیب ترامیم کے فیصلے کو معطل کر دیں ورنہ یہ کیس تاخیر کا شکار ہوا تو احتساب عدالت سے فیصلے آ جائیں گے۔‘
عدالت نے وکلا کے دلائل سن کر دو گھنٹے کی سماعت کے بعد حکم دیا کہ ’یہ مناسب ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تفصیلی فیصلے کے بعد نیب انٹرا کورٹ اپیل سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’یہ عدالت فیصلہ کر چکی ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ لکھا نہیں گیا۔ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ 21 اپریل سے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا اطلاق کیا گیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ نیب ترمیم کا تین رکنی بینچ نے 15ستمبر کو فیصلہ دیا تھا۔‘
عدالت نے حکم نامے میں مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ تاحال نہیں آیا۔ اپیل میں اٹھائے گئے اعتراض کا ممکنہ انحصار پریکٹس اینڈ پروسیجر تفصیلی فیصلے پر ہو گا۔آگاہ کیا گیا کہ تیسری نیب ترمیم مئی میں آئی جبکہ فیصلے میں اس کا جائزہ نہیں لیا گیا، آگاہ کیا گیا کہ تیسری نیب ترمیم کے بعد مقدمے کی چھ سماعتیں ہوئی تھیں، بتایا گیا کہ تیسری ترمیم کے بعد ٹرائل کورٹس بھی کنفیوژن کا شکار ہیں کہ کیسے آگے چلا جائے؟‘
جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران سوال اٹھایا کہ ’تیسری ترامیم کو جائزہ لیے بغیر پہلی اور دوسری ترمیم کیسے کالعدم قرار دی جاسکتی ہے؟ جب تک تمام ترامیم کو اکھٹا نہ دیکھا جائے کچھ ترامیم کو کیسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم کیس میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں پانچ رکنی بینچ کو سننا چاہیے تھا، میں جسٹس اطہر من اللہ کی آبزرویشن سے متفق ہوں۔ نیب قانون میں تینوں ترامیم ایک دوسرے سے لنک کرتی ہیں۔ نیب قانون میں تیسری ترمیم کے بعد بھی پانچ ماہ میں چھ ترامیم ہوئیں۔ میں اس قانونی نقطے پر کافی حیران ہوں۔ اگر نیب قانون میں تیسری ترمیم سے قبل فیصلہ محفوظ ہو جاتا تو الگ بات تھی۔ نیب قانون میں تیسری ترمیم کے بعد بھی چھ سماعتیں ہوئیں۔‘
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
عدالت نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا جبکہ چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کیے گئے۔
عدالت عظمیٰ نے اس کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔نیب ترامیم کیس کا فیصلہ کیا تھا؟
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ 15 ستمبر 2023 کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل جاری کیا تھا، جس میں سپریم کورٹ نے بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترمیم کالعدم قرار دے دی تھی۔
اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں جبکہ عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کیے اور انہیں احتساب عدالت میں بھیجنے کا حکم دیا، نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں میں بھیجنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
یہ فیصلہ تین رکنی بینچ نے سنایا تھا، چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
نیب ترامیم کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
رواں ماہ 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
اپیل میں فیڈریشن، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بنایا گیا ہے جبکہ 15 اکتوبر کو درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے بھی پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
نیب ترامیم کے فیصلے کے خلاف اپیل سماعت کے لیے مقرر
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں اور چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ پانچ رکنی لارجر بینچ 31 اکتوبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔ لارجر بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔