کیا حکومت نیب ترامیم منظور کروا پائے گی؟

وفاقی حکومت گذشتہ تقریباً ایک مہینے کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دو ترامیم متعارف کروا چکی ہے، جبکہ اس سے قبل بھی نیب قانون میں ایک تبدیلی کی گئی تھی۔

نیب قانون میں کی گئی  ترامیم پر پاکستان کے روایتی اور سوشل میڈیا پر بھی بحث ہوتی رہی ہے  (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے جمعرات (11 نومبر) کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا تھا، جس کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق قانون میں کی گئی ترامیم منظوری کے لیے پیش کیے جانے کا امکان تھا تاہم اب یہ اجلاس اپوزیشن کے ساتھ قانون سازی پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے موخر کردیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’انتخابی اصلاحات سے متعلق قانون سازی پر اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس موخر کیا گیا ہے۔‘

وفاقی حکومت گذشتہ تقریباً ایک مہینے کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دو ترامیم متعارف کروا چکی ہے، جبکہ اس سے قبل بھی نیب قانون میں ایک تبدیلی کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ صدارتی آرڈیننس کی قانونی عمر 120 روز ہوتی ہے، جس کے ختم ہونے پر وہی آرڈیننس ایک مرتبہ دوبارہ لاگو کیا جا سکتا ہے، تاہم اس کے بعد پارلیمان سے منظوری کے بغیر ایسا قانون خود ہی ختم ہو جاتا ہے۔

پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ پیر کو وزیراعظم عمران کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا تھا، جہاں وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے بتایا کہ مشترکہ اجلاس میں انتخابی و قانونی اصلاحات، الیکٹرانک ووٹنگ اور ادارہ جاتی اصلاحات پر قانون سازی کروائی جائے گی۔ 

قومی احتساب بیورو کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق کا کہنا تھا کہ ’نیب کے قانون میں کی گئی تینوں ترامیم کا مقصد نیب کے سربراہ کے طور پر موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کو نہ صرف برقرار رکھنا ہے، بلکہ انہیں کسی طرح سیاسی کنٹرول میں بھی لانا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’یہ سارا کھیل ہی چیئرمین نیب کے عہدے کے لیے ہے۔‘

نیب قانون میں کی گئی مذکورہ ترامیم پر پاکستان کے روایتی اور سوشل میڈیا پر بھی بحث ہوتی رہی ہے اور ان صدارتی آرڈیننسز پر تنقید کے علاوہ ستائش بھی کی گئی۔ 

حزب اختلاف کی جماعتوں کے علاوہ وکلا کی نمائندہ تنظیموں اور سول سوسائٹی نے بھی ان ترامیم پر تحفظات کا اظہار کیا۔ 

نیب قانون میں مذکورہ ترامیم پر تنقید کرنے والوں کے خیال میں ان صدارتی آرڈیننسز کے ذریعے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کو دوبارہ اس عہدے پر فائز کرنا چاہتی تھی۔ 

مندرجہ ذیل سطور میں ہم جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ اتنے کم عرصے کے دوران نیب قانون میں کون کون سی ترامیم کی گئیں اور ان کے مستقبل میں کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ 

نیب قانون میں پہلی ترمیم 

تحریک انصاف حکومت نے کچھ عرصہ قبل نیب قانون میں ایک ترمیم کے ذریعے اختیارات کے غلط استعمال کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیا اور نیب کو مخصوص قسم کے معاشی جرائم تک محدود کرنے کی کوشش کی۔ 

سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر کے مطابق یہ آرڈیننس ایک وضاحتی ترمیم تھی، جس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ اگر کسی کام میں رشوت یا کمیشن (کک بیکس) کا عمل نہ ہو تو انہیں نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیا جائے۔ 

تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت اس صدارتی آرڈیننس کو پارلیمان میں پیش نہ کرسکی اور وہ اپنی موت آپ مر گیا۔ 

نیب قانون میں دوسری ترمیم 

وفاقی حکومت نے اس سال نیب قانون میں ترمیم کا ارادہ کیا اور نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدت ملازمت کے ختم ہونے سے ایک روز قبل سات اکتوبر کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب قانون میں 2021 کی پہلی اور مجموعی طور پر دوسری ترمیم کی گئی۔ 

دوسری ترمیم کے ذریعے چیئرمین نیب کے عہدے پر فائز شخصیت کی مدت ملازمت ختم ہونے پر انہیں دوبارہ اسی عہدے پر تعینات کیے جانے کو ممکن بنا دیا گیا۔ 

سال 1999 میں بنائے گئے قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون کے تحت ادارے کے سربراہ کی مدت ملازمت چار سال تھی، جس میں کوئی توسیع ممکن نہیں تھی۔ 

عمران شفیق کے مطابق چیئرمین نیب کی مدت ملازمت کو تحفظ فراہم کرنے کا مقصد اس عہدے پر فائز شخصیت کو خوف اور لالچ سے آزاد کرنا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’یعنی بااثر شخصیات کے خلاف کارروائی کے باعث ممکنہ طور پر ملازمت سے ہٹائے جانے کا خوف اور برسر اقتدار سیاسی جماعت یا با اثر افراد کو احتساب کے عمل سے باہر رکھ کر مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کا لالچ۔‘ 

دوسری ترامیم واضح طور پر چیئرمین نیب کے عہدے پر فائز جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدت ملازمت میں توسیع کو ممکن بنانا تھا۔ 

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ترمیم کا مقصد نیب کے موجود چیئرمین کو عہدے پر رکھنا تھا، تاہم اس میں دوسری بہت ساری چیزیں بھی قصدا ڈال دی گئیں، تاکہ اصل معاملہ زیادہ اہمیت حاصل نہ کر پائے۔ 

چیئرمین نیب کی دوبارہ تعیناتی کے علاوہ دوسری ترمیم کے ذریعے نیب قانون میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی گئیں۔ 

1۔ صدر پاکستان وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشورے سے نئے نیب چیئرمین کی تقرری کریں گے۔ 

2۔ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشورے میں اتفاق پیدا نہ ہونے کی صورت میں نئے چیئرمین نیب کی تقرری کا فیصلہ 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا۔

3۔ مذکورہ کمیٹی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے چھ چھ اراکین پر مشتمل ہو گی۔ 

4۔ صدر پاکستان ملک میں ضرورت کے مطابق جتنی چاہیں احتساب عدالتیں قائم کر سکتے ہیں۔ 

5۔ چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ وہی رہے گا، تاہم انہیں عہدے سے اسی طریقے کے تحت ہٹایا جائے گا جس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کو ہٹایا جاتا ہے۔ 

6۔ چیئرمین نیب صدر مملکت کو استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں۔ 

7۔ ترمیم کے تحت احتساب ریفرنس میں ضمانت دینے کا حق صرف احتساب عدالت کو ہو گا، جبکہ اس مقصد کے لیے زرضمانت ملزم پر خرد برد کے الزام میں درج رقم کے برابر رکھی گئی ہے۔ 

8۔ چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل نیب کے مشورے سے ریفرنس فائل کریں گے، جو پاکستان کے کسی بھی حصے میں قائم احتساب عدالت میں سنا جا سکے گا۔ 

9۔ احتساب عدالتوں کے جج تین سال کی مدت کے لیے مقرر کیے جائیں گے۔ 

10۔ نیب قانون وفاق اور صوبوں کے ٹیکسوں سے متعلق امور پر لاگو نہیں ہو گا، جبکہ وفاقی اور صوبائی کابینہ، کمیٹیوں یا ذیلی کمیٹیوں کے فیصلوں کو نیب قانون سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ 

11۔ اسی طرح مشترکہ مفادات کونسل، قومی معاشی کونسل، نیشنل فنانس کمیشن، ایکنیک، سی ڈی ڈبلیو پی اور پی ڈی ڈبلیو پی بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔ 

12۔ نجی اور حکومتی منصوبوں میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گی۔ 

نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ ’احتساب کے قانون میں پہلے سے مقدس گائیں موجود تھیں، جن کی تعداد میں اس آرڈیننس کے ذریعے اضافہ کر دیا گیا ہے۔‘

اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ کابینہ، ای سی سی اور دوسرے کمیٹیاں اور فورمز کو نیب کے دائرہ اختیار سے خارج کر کے حکومتی عہدیداروں کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

راجہ عامر عباس نے مزید کہا کہ اب نیب صرف سرکاری افسران کے خلاف مقدمات قائم کرسکے گی جبکہ اہم لوگ بشمول وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وفاقی و صوبائی وزرا احتساب سے مستثنیٰ ہو جائیں گے۔ 

نیب قانون میں تیسری ترمیم 

دوسری ترمیمی آرڈیننس کے لاگو ہونے کے چند روز بعد ہی چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک شکایت داخل کر دی گئی۔ 

عرفان قادر کے خیال میں: ’فاقی حکومت کو سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر ہونے سے خطرہ ہوا کہ معاملہ عدلیہ کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔‘

اس موقعے پر حکومت نے نیب قانون میں تیسری ترمیم کی اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 30 اکتوبر کو آرڈیننس جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ چیئرمین نیب چار سال کی مدت کے لیے ان شرائط و ضوابط پر اپنے عہدے پر فائز رہے گے، جن کا تعین صدر مملکت کریں گے اور صدر انہیں انہی وجوہات کی بنیاد پر ہٹا سکتے ہیں، جن وجوہات کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جج کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اس ترمیم کے ذریعے نئے چیئرمین نیب کی تقرری تک موجودہ چیئرمین کو ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

عمران شفیق کے مطابق: ’اس ترمیم کے باعث موجودہ چیئرمین کی مدت کا تعین نہیں ہے، یعنی وہ لامتناہی عرصے تک بھی کام کر سکتے ہیں، جب تک کہ دوسرے چیئرمین کی تقرری نہیں ہوتی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کے برعکس نیب کے 1999 کے قانون میں چیئرمین کی ملازمت کی مدت کا تعین تھا، جو اس ترمیم میں اڑا دیا گیا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان