’نیب تماشہ‘

پچھلے ہفتے جب پاکستان کے لوگ تحریک لبیک پاکستان کے معاملے میں محو تھے تو یوں لگتا ہے کہ پرائم منسٹر کے کسی ارسطو نے ایک ایسی تجویز دے ڈالی جس کے نتیجے میں اب حکومت کے لیے ایک اور مصیبت پیدا ہوگئی ہے۔

حقیقت میں نیب چیئرمین کو ہٹانا پرائم منسٹر کا صوابدیدی اختیار ہو گا۔(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

اپوزیشن میں رہتے ہوئے پرائم منسٹر اداروں کو مضبوط کرنے کی بات اور ان کو صاف شفاف اور آزادانہ طریقے سے چلانے کا عزم کیے ہوئے تھے لیکن نیب کی ترامیم نے اس عزم کو خوب ڈھیر کیا ہے۔

یہ ترامیم کوئی نہ کوئی عدالت میں لے جائے گا اور عدالت قانونی طور پر ان کو رد کرے گی، سوال تو یہ ہے کہ پرائم منسٹر یہ ترامیم کیا کل کی سیاسی مقابلے کی تیاری میں کر رہے ہیں؟ ان ترامیم کا تعلق آئینی طور پر صاف اور شفاف حساب سے ہر گز نہیں۔

پچھلے ہفتے جب پاکستان کے لوگ تحریک لبیک پاکستان کے معاملے میں محو تھے تو یوں لگتا ہے کے پرائم منسٹر کے کسی ارسطو نے ایک ایسی تجویز دے ڈالی جس کے نتیجے میں اب حکومت کے لیے ایک اور مصیبت پیدا ہوگئی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مصیبت صرف سیاسی مخالفین کے ردعمل کے نتیجہ میں ہی نہیں  بلکہ پرائم منسٹر کی اپنی حکومت کے اہم عہدیداران کی مخالفت اور تنقید کے نتیجے میں پیدا ہوگی بلکہ ہوگئی ہے۔

31 اکتوبر کو جب حکومت نے آرڈیننس میں تیسری ترمیم کی تو وزیر قانون فروغ نسیم نے وجہ یہ بیان کی کہ چھ اکتوبر کی ترمیم کے بعد بہت سے سوالات اٹھے جس کا جواب اب تیسری ترمیم میں شامل کر دیا گیا ہے! یہ عجب منطق تھی کیوں کہ اس تیسری ترمیم میں نئے اقدام کیے گئے تھے۔

نمبر ایک سپریم جوڈیشل کونسل سے نئے چیئرمین کو ہٹانے کا اختیار لے لیا گیا اور وہ اختیار صدر پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ یہ تو قانونی نکتہ ہے، حقیقت میں چیئرمین کو ہٹانا پرائم منسٹر کا صوابدیدی اختیار ہو گا۔

نمبر دو کہ اکتوبر کی چھ تاریخ سے پہلے کے تمام نیب کیسز کے چارجز برقرار رہیں گے اور جو چھ اکتوبر کی ترمیم میں حکومتی فیصلہ سازی کو نیب کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا ہے وہ ان کیسز پر نہیں لاگو ہوگا۔ اس ترمیم میں فراڈ دھوکا اور مضاربہ کے کیسز، نیب کے دائرہ کارسے نکالے ہوئے کیسز واپس نیب کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔

وزیر قانون کی لفاظی اپنی جگہ لیکن اس تیسری ترمیم نے نئے سوال اٹھائے ہیں نہ کہ پرانوں کا جواب دیا ہے۔ اکتوبر چھ کی ترمیم میں بڑا سوال چیئرمین کی تعیناتی کا تھا کہ کیا چیئرمین چار سال کی مدت کے بعد فوری طور پر ہٹائے جائیں گے اور ایک نیا چیئرمین تعینات ہوگا؟ یہ تھا سوال لیکن اس سوال کا جواب اس ترمیم میں بھی موجود نہیں بلکہ چیئرمین جن کے پاس بہت سے صوابدیدی اختیار ہیں جن پر بہت سے سوالات اٹھے نہ ان سوالوں کا جواب اس تیسری ترمیم میں موجود ہے اور نہ ہی تعیناتی کے حوالے سے صاف اور سیدھا جواب۔

یہ اور معاملہ ہے کہ اس حکومت نے وقت پر نئے چیئرمین کی تعیناتی کا عمل نہیں شروع کیا اور موجودہ چیئرمین کو اپنی چار سال کی مدت مکمل کرنے کے بعد بھی عہدے سے نہیں ہٹایا۔

آخر یہ سب معاملات کو دیکھتے ہوئے ہی حکومت کے دو قانونی ماہر اٹارنی جنرل اور چیئرمین سینیٹ کمیٹی برائے قانون اور انصاف نے نیب آرڈیننس کی تیسری ترمیم کی مخالفت کی ہے۔ اٹانی جنرل خالد جاوید نے پرائم منسٹر کو اس ترمیم کو پارلیمان میں لے جانے کی تجویز دی ہے۔

علی ظفر چیئرمین سینیٹ کمیٹی نے بھی ہم ٹی وی کے شو میں اس تیسری ترمیمی آرڈیننس پر تنقید کی ہے۔ یہ دونوں حضرات پرائم منسٹر کی 27 اکتوبر کی میٹنگ جس میں اس تیسری ترمیم کا فیصلہ لیا گیا تھا موجود نہیں تھے۔ پرائم منسٹر کے قانونی جادوگر فروغ نسیم صاحب اور احتساب جادوگر شہزاد اکبر صاحب البتہ حاضر تھے۔ علی ظفر اور خالد جاوید چیئرمین نیب کے ہٹانے کے حوالے سے اس تیسری ترمیم میں دیے گئے طریقے سے اتفاق نہیں کرتے جس کے تحت چیئرمین نیب کو ایک فورم یعنی جوڈیشل کونسل کے ذریعے سے ہٹانے کی بجائے حکومت یعنی ایگزیکٹو ہٹائی گئی۔ یہ تو سراسر نیب چئیرمین کو ایک کابینہ کے منسٹر کی طرح ہٹا دیا جا سکتا ہے۔

اس عمل میں یقیناً پرائم منسٹر اور ان کے مشاورتی گروہ کی کوئی نیک نیتی نظر نہیں آتی۔ سپریم جوڈیشل کونسل سے اختیارات لے کر کہنے کو تو صدر کے ہاتھ دینا لیکن حقیقتاً ایگزیکٹو کو یعنی پرائم منسٹر کو تھما دینا اس بات کی دلیل ہے کہ پرائم منسٹر نیب چئیرمین کو زیادہ رول کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب یہ تو نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے کہ پرائم منسٹر اس کنٹرول سے کرنا کیا چاہتے ہیں یعنی کہ وہ اپنے آپ کو یہ کنٹرول دینے کے لیے کیا جواز پیش کرتے ہیں، وہ معاملہ پرائم منسٹر اور ان کے درمیان ہیں لیکن ایک معاملہ یہ سب سے اہم معاملہ ہے وہ ہے پرائم منسٹر اور آئین، پرائم منسٹر اور قانون، یہ معاملہ پرائم منسٹر اور عوام کے درمیان ہے۔ آخر کار اس حکومت کے آنے کے بعد نیب بحیثیت ادارہ کتنا حقیقی طور پر احتساب ایک صاف اور شفاف طریقے سے آگے بڑھا رہا ہے یا پھر نیت جو بھی ہو عملی طور پر نیب کی کارروائیوں پر لاتعداد سوال اٹھتے ہیں۔

پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نیب کے کام پر اور اس کے سیاسی نہ کہ قانونی وجوہات پر مقدمات بنانے پر تواتر سے تنقید کر رہی ہے۔ یہی تنقید غیر جانبدار قانونی ماہرین کی ہے اور پھر نیب کے موجودہ چیئرمین مبینہ طور پر یہ بھی فرما چکے ہیں کہ اگر میں موجودہ حکومت کے لوگوں کے کیس کھولوں تو یہ حکومت زیادہ دیر بچ نہیں سکتی۔

ایک لمبی لسٹ ہے جس کا ذکر نیب کے اور حکومت کے ناقدین کہتے ہیں کہ ان کو نیب پس پردہ رکھے ہوئے ہے اور ان پر انکوائری نہیں شروع کرواتی۔ مثلا مالم جبہ چینی سکینڈل، آٹا سکینڈل اور پھر حکومتی وزرا جن کے بارے میں مبینہ کرپشن کی خبریں نکلی اور پھر بظاہر منظر عام سے جب بھی ہو گی۔ اور اس سب سے ہٹ کر نیب کے اپنے بلند و بانگ دعوؤں کے جواب میں وزارت خزانہ نے حال ہی میں یہ کہا کہ نیب کے دعوؤں کے برعکس اس نے 815 ارب روپے کی وصولی کی ہے یہ رقم کی وزارت خزانہ کو موصول نہیں ہوئی۔ سینٹ کی کمیٹی برائے خزانہ میں وزارت خزانہ کے اہلکار نے یہ ضرور بتایا کہ نیب نے صرف 6.5 ارب روپے کی وصولی ملکی خزانے میں جمع کروائی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر