وفاقی حکومت نے چیئرمین نیب کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل سے واپس لے لیا ہے وزارت قانون سے جاری ترمیمی دستاویز کے مطابق وفاقی حکومت نے نئے آرڈیننس میں چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار صدر مملکت کو دے دیا ہے۔
جب کہ چھ اکتوبر کو قومی احتساب بیورو کا ترمیمی آرڈیننس 2021 وفاقی کابینہ کی منظوری اور صدر مملکت پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد نافذالعمل ہو گیا ہے۔
اس آرڈیننس کے مطابق اس کے نفاذ کے بعد جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بطور چیئرمین نیب اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے کے باوجود نئے چیئرمین کے تعینات ہونے تک موجودہ عہدے پر برقرار رہیں گے۔
چیئرمین نیب کے خلاف ریفرنس کیا تھا؟
واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں چیئرمین نیب کیخلاف ریفرنس زیر التوا ہے۔ ریفرنس میں درخواست گزار ایڈووکیٹ سعید ظفر نے الزام عائد کیا تھا کہ ایک نجی کمرے میں کسی ملزم سے ذاتی ملاقات اور مبینہ طور پر قابل اعتراض حرکت کرنا بہت غیر اخلاقی عمل ہے اور چیئرمین نیب کا یہ فعل غلط کام کے زمرے میں آتا ہے۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ ’نیب انکوائری کے دوران ملزمہ طیبہ گل کی چیئرمین نیب سے ملاقات اور اس کے بعد فون پر ہونے والی گفتگو اتنے معزز عہدے کی جانب سے سنگین مس کنڈکٹ ہے لہذا سپریم جوڈیشل کونسل چیئرمین نیب کے خلاف اس سنگین مس کنڈکٹ سے متعلق انکوائری شروع کرے اور حقیقت جاننے کے لیے ویڈیو کی فرانزک جانچ کا حکم دیا جائے۔‘
چئیرمین نیب کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی رواں برس جولائی میں ہوئی جس میں اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کی گئی کہ چئیرمین نیب کو قانونی طور پر ہٹانے کا اختیار کس کا ہے۔ جس کے بعد اکتوبر میں جاری ہونے والے آرڈیننس میں وفاقی حکومت نے چھ اکتوبر کے آرڈیننس میں چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کو دیا تھا۔ آرڈیننس کے تحت 1999 کے آرڈیننس کے سیکشن چھ میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔ جس میں واضح لکھا تھا کہ چیئرمین نیب کو ہٹانے کا طریقہ کار آرٹیکل 209 میں دیے گئے سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کے طریقہ کار جیسا ہوگا۔ جس کے بعد جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل کو چیئرمین نیب کو ہٹانے کا طریقہ کار وضاحت کی ہدایت کی تھی۔
آرٹیکل 209 کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے یا عدالت کا کوئی جج جسمانی، دماغی معذوری کی وجہ سے اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہو یا بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہو تو اس پر کونسل کے اراکین فیصلہ کرتے ہیں۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’نیب کے قانون کا اطلاق حاضر سروس چیف جسٹس اور تمام ججز پر بھی ہوتا ہے اگر ججز کے پاس اختیار ہو گا تو وہ چئیرمین نیب پر اثرانداز ہو سکتے ہیں اس لیے تکنیکی لحاظ سے یہ اچھا ہوا ہے کہ چئیرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ کار سے نکل گیا۔‘ چئیرمین نیب کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کا کیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جب سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار ہی ختم ہو گیا تو ریفرنس بھی غیر موثر ہو گیا ہے۔‘
چھ اکتوبر والے آرڈیننس میں مزید کیا ترمیم کی گئی؟
اکتیس اکتوبر کو جاری ہونے والے ترمیمی آرڈینیس میں کہا گیا کہ آرڈیننس کا اطلاق 6 اکتوبر اور اس کے بعد کے کیسز پر ہوگا۔ جب کہ نئی ترامیم کے مطابق چھ اکتوبر سے پہلے والے منی لانڈرنگ کیسز پر کارروائی معمول کے مطابق عدالتوں میں جاری رہے گی۔ ترمیمی آرڈیننس میں پراسیکیوٹر جنرل کے کردار کو بڑھایا گیا تھا جس کے مطابق چئیرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل سے آزادانہ رائے لیں گے۔ پراسیکیوٹر جنرل چیئرمین کو بتائے گا کون سا مقدمہ چلانا چاہیے اور کون سا نہیں۔ اس کے لیے ٹیکس کے معاملات کو نیب کے دائرہ سے باہر کر دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل، این ای سی، این ایف سی، ایکنک، سی ڈی ڈبلیو پی، پی ڈی ڈبلیو پی کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔
واضح رہے چھ اکتوبر کو ترمیمی آرڈیننس آنے کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری نے نئے نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت بریت کی درخواست دائر کی تھی جسے احتساب عدالت نے ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
قانونی ماہرین کے مطابق آرڈیننس میں کیسز کا سامنا کرنے والے تمام بڑے سیاست دانوں اور بڑے ناموں کے لیے ریلیف کی راہ بند ہوگئی۔ آصف زرداری، شاہد خاقان، مریم نواز، شہباز شریف کو ریلیف نہیں ملے گا۔ پہلے سے قائم تمام منی لانڈرنگ کے کیسز ویسے ہی چلیں گے۔
آرڈیننس کی ترمیم میں اب زر ضمانت کے تعین کا اختیار بھی عدالت کو دے دیا گیا ہے۔ چھ اکتوبر والے ترمیمی آرڈیننس میں جرم کی مالیت کے برابر مچلکے جمع کرانے کی شرط تھی۔ منی لانڈرنگ کے تمام کیسز پر نیب کو کارروائی کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ جب کہ احتساب عدالت منی لانڈرنگ کے کیسز پر ٹرائل جاری رکھے گی۔