سپریم کورٹ: نیب ترامیم کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور

نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی جس میں جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔ چیف جسٹس کے ریمارکس کے مطابق ’یہ معاملہ بالآخر پارلیمنٹ جائے گا۔‘

’ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم تو ہیں لیکن ان کے مطابق نہیں۔‘ (فائل تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے نیب ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی ہے۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت شروع ہونے کے بعد جب ان کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس عمر عطابندیال نے مسکراتے ہوئے انہیں مخاطب کر کے کہا کہ ’آپ نے بڑی محنت کی ہے۔‘ جواب میں انہوں نے کہا کہ ’محنت تو انہوں نے بھی بڑی کی ہے جنہوں نے ترامیم کیں۔‘

درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جس میں جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’وزیر قانون کے مطابق ہر ترمیم کے پیچھے ایک فیصلہ ہوتا ہے، کیا ایسا ہے؟‘ جواب میں وکیل کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے۔ ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم تو ہیں لیکن ان کے مطابق نہیں۔‘ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’بہت سی ترامیم کو جلد بازی میں منظور کیا گیا ہے۔‘

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اقوام متحدہ کے اینٹی کرپشن کنونشن کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ زیادہ تر کیسز اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثوں کے ہوتے ہیں، ترامیم کے بعد کسی کو فائدہ پہنچانے پر کیس نہیں بنے گا۔ جب تک اختیار استعمال کرنے والا خود فائدہ نہ لے کیس نہیں بن سکے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازوں کو ان کا استحقاق استعمال کرنے نہیں دینا چاہیے؟ جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمان کل قرار دے کہ قتل جرم نہیں ہے تو کیا ایسا ہونے دیا جائے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ ’پارلیمان اگر سزائے موت ختم کرتی ہے تو کیا عدالت اسے بحال کر سکتی ہے؟‘ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سزائے موت ختم کرنے کا معاملہ مختلف ہے، جہاں کرپشن اور قومی خزانے کا معاملہ ہو وہاں بات بنیادی حقوق کی آتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ترمیم سے اختیارات کے ناجائز استعمال کو بطور جرم ختم نہیں کیا گیا، جو ترامیم بنیادی حقوق کے خلاف ہیں ان کے بارے میں بتائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ’کیا پارلیمان کے قانون سازی کے اختیارات کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا؟ کیا مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کا قانون چیلنج نہیں ہو سکتا؟ سال 1985 سے ترامیم کے اطلاق کا مطلب ہے زیر التوا تمام مقدمات بیک جنبش قلم سے ختم ہو گئے؟‘

اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اختیارات کے غلط استعمال کے جرم کو اب ثابت کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے، احتساب عدالتیں اب بیرون ملک سے آنے والی معلومات بطور شواہد قبول نہیں کر سکتیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے حالیہ ترامیم کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ پیسہ بیرون ملک منتقلی بھی جرم نہیں رہا، منتقل شدہ پیسے سے اثاثے بنانا ثابت کرنے پر ہی جرم ہوگا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ نئی ترامیم کے ساتھ جعلی اکاؤنٹس کے تمام کیسز ختم ہوجائیں گے۔

’ترامیم پر ٹوکن مزاحمت‘

سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کے حوالے سے صرف صدر مملکت نے ترامیم پر ٹوکن مزاحمت کی تھی، انہوں نے مزاحمت قانون کی منظوری نہ دے کر کی تھی۔ عدالت نے نیب ترامیم خلاف آئین ہونے پرحکومت سے جواب مانگتے ہوئے وفاقی حکومت اور نیب کو نوٹسز جاری کر دیے۔

’آپ کہاں تھے جب یہ قانون منظور ہو رہا تھا؟‘

اس کے بعد چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ ان قوانین کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ پارلیمان عدالتی تجاوز کو لے کر کافی سنجیدہ ہے۔ یہ معاملہ وہاں کیوں زیر بحث نہیں آیا؟ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہ محمود کا کہنا تھا کہ ہم ٹرائیکوٹومی کو سمجھتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مفہوم سمجھ رہے ہیں؟ آپ کہاں تھے جب یہ قانون منظور ہو رہا تھا؟ پارلیمان میں آپ کی تعداد کتنی تھی؟ اس پر سوچیں، اس میں آپ (پی ٹی آئی) کا بڑا کردار ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے یہ بات پارلیمان میں اٹھائیں‘ جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’عوام نے بطور ممبر اسمبلی آپ پر جو اعتماد کیا تھا وہ پورا نہیں ہو رہا۔‘

چیف جسٹس نے شاہ محمود سے بات کے دوران ریمارکس میں کہا ’یہ معاملہ بالآخر پارلیمنٹ جائے گا۔‘

’سوالات میں تجویز چھپی ہوئی ہے‘

جسٹس منصور علی شاہ نے شاہ محمود سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے فورم سے باہرنکل کرعدالت آنے سے آپ متاثرہ فریق کیسے ہوئے؟ شاہ محمود کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے پاس اکثریت تھی، مخالفت کرتے بھی تو قانون بلڈوز کر دیا جاتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمارے سوالات میں ایک تجویز چھپی ہوئی ہے،اس پرعوام کی خاطرغورکریں۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ پارلیمان کا کوئی متبادل فورم نہیں ہے۔‘

’ہمیں کہتے ہیں رات کو عدالتیں کھولتے ہیں‘

سماعت کے دوران پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کا ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے عدالتی فیصلے سے مشروط کرنے کی استدعا کی جس کی ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے مخالفت سامنے آئی۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ریلیف عدالتی فیصلے سے مشروط ہو تو حکومت کو کیا مسئلہ ہے؟ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کئی مقدمات میں ٹرائل کورٹس میں ریلیف کی درخواستیں آ چکی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’اگر ترامیم کالعدم ہوئیں تو ملنے والا فائدہ واپس ہو جائے گا۔‘

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے وقت کے تعین کے دوران ریمارکس دیتے وقت مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں کہتے ہیں رات کو عدالتیں کھولتے ہیں۔‘ عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 29 جولائی کو صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان