نیب افسران نے برہنہ کر کے میری ویڈیوز بنائیں: طیبہ گل

چیئرمین کمیٹی کا موقف تھا کہ ’ہمیں جاوید اقبال کو بھی سننا ہو گا کیونکہ یہ قانونی تقاضا ہے۔‘ قائم مقام چیئرمین نیب کے مطابق’محترمہ کے ساتھ مختلف مقامات پر مختلف معاملات ہوئے، تو جس جس محکمے کی حدود بنتی ہے اُن کو آن بورڈ لے کر تحقیقات میں شامل کریں گے۔‘

جب سابق چیئرمین نیب کے معاملے پر بات شروع ہوئی تو طیبہ گل جو پارلیمنٹ عمارت کے کسی کمرے میں بیٹھیں تھیں انہیں کمیٹی روم بلایا گیا  (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کی وائرل ویڈیوز میں متاثرہ خاتون طیبہ گل نے کمیٹی میں بیان دیا کہ جاوید اقبال کے مطالبات نہ ماننے کی وجہ سے اُن پر جھوٹے مقدمے بنائے گئے اور ’گرفتار کر کے برہنہ ویڈیوز بنائی گئیں۔‘

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ’ہمارے پاس سابق چیئرمین نیب کے خلاف طیبہ گل کی جانب سے ہراسانی کی درخواست آئی تھی۔ ہم نے چیئرمین نیب کو نوٹس کیا تھا لیکن وہ خود نہیں آئے لیکن خط بھجوا دیا کہ عید کے بعد آئیں گے۔ صاحب کہتے ہیں میں عید کے لیے جا رہا ہوں خالانکہ عید ابھی دور ہے۔‘

چیئرمین کمیٹی نے کہا ’میں تو چاہتا ہوں سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کے وارنٹ جاری کر دوں؟ اب مجھے بتائیں جو شخص اپنے دفتر میں اختیارات کا غلط استعمال کرے اُس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ میں خواتین کو ہراساں کرنا کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔‘

جب سابق چیئرمین نیب کے معاملے پر بات شروع ہوئی تو طیبہ گل جو پارلیمنٹ عمارت کے کسی کمرے میں بیٹھیں تھیں انہیں کمیٹی روم بلایا گیا۔ پانچ منٹ بعد پارلیمنٹ کی خواتین سارجنٹس کے ہمراہ طیبہ گل کمیٹی روم میں آئیں۔

جب سوال کیا گیا کہ ’آپ نے سابق چیئرمین اور ڈی جی نیب شہزاد سلیم کے خلاف بہت سنجیدہ الزامات لگائے ہیں۔‘ تو طیبہ گل کا کہنا تھا کہ ’میرے خلاف جھوٹا ریفرنس بنایا گیا نہ میری تحقیقات ہوئیں نہ مجھے کوئی نوٹس جاری کیا گیا۔ اچانک نیب کی ٹیم نے مجھے حراست میں لے لیا۔‘

آپ کی جاوید اقبال سے کب ملاقات ہوئی؟ اس سوال پر طیبہ نے بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن میں اُن کی جاوید اقبال سے ملاقات ہوئی تھی۔ ’میرے شوہر کی چچی لاپتہ تھیں اُس سلسلے میں، میں اور میرے شوہر لاپتہ افراد کے سربراہ سے ملنا پڑا۔‘

چیئرمین کمیٹی نے طیبہ گل کے شوہر کو بھی کمیٹی روم میں طلب کر لیا۔ طیبہ گل نے بتایا کہ ’جاوید اقبال نے کہا کہ آپ جب تک نہیں آئیں گی میں سماعت نہیں کروں گا۔ میں نے ان کو کہا کہ میرا ہونا ضروری نہیں میں براہ راست متاثرہ فریق ہوں لیکن جاوید اقبال نے کہا کہ میں آپ کی وجہ سے جلدی سماعت رکھ رہا ہوں آپ کو آنا ہو گا۔‘

طیبہ نے بتایا کہ ’میرے بارے میں رائے بنائی گئی کہ میں نے اگر چیئرمین نیب کی ویڈیو بنائی ہے تو میں نے بلیک میل کیا۔ میرا مقصد کسی کو بلیک میل کرنا نہیں بلکہ خود کو ہراساں کرنے کا ثبوت بنانا تھا۔‘

’جاوید اقبال نے چیئرمین نیب بننے کے بعد کہا کہ میں اب چیئرمین نیب ہوں میں چاہوں تو تمہاری زندگی خراب کر سکتا ہوں۔ اُس دھمکی کے دو دن بعد مجھے نیب نے حراست میں لے لیا۔ حراست میں لیتے وقت مرد حضرات موجود تھے وہاں کوئی خاتون اہلکار موجود نہیں تھی۔ اس دوران بھی انہوں نے راستے میں میرے ساتھ جو کیا میں بیان نہیں کر سکتی۔‘ طیبہ گل یہ سب بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ’جب ڈی جی نیب شہزاد سلیم آئے تو میرے کپڑے پھٹ چکے تھے اور میرے جسم پر نیل کے نشان تھے۔‘

’اس کے بعد مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا، کہا گیا کہ اس عورت کی تلاشی لو میرے کپڑے اتارے گئے وہاں کیمرہ لگایا گیا میرا سب کے سامنے تماشا بنایا گیا۔ مجھے برہنہ کر کے نیب نے میری ویڈیوز بنائیں۔‘

یہ کہتے ہوئے طیبہ گل کی آواز بھرا گئی اور وہ رونے لگ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اگلے دن جب مجھے عدالت لے کر گئے تو جج نے کہا کہ ان خاتون کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ میرا کوئی میڈیکل نہیں کرایا گیا۔ میری طرف سے خود کاغذ پر لکھا کہ میں میڈیکل کرانا نہیں چاہتی۔ میرے شوہر کا پچاس دن ریمانڈ لیا گیا۔ میری ریکارڈ کی گئی ویڈیو میرے شوہر کو دکھا کر انہیں ذہنی تکلیف دی گئی۔ بعد ازاں میری ہائی کورٹ سے ضمانت ہوئی۔‘

انہوں نے بتایا کہ میں نے 10 مئی 2019 کو سیٹزن پورٹل میں شکایت درج کرائی اور 21 مئی کو میرے خلاف 40 ایف آئی آر کرائی گئیں۔

چیئرمین کمیٹی نے مجاز افسران کو کہا کہ ’طیبہ گل نے جس جس کا نام لیا ہے سب کے نام نوٹ کر لیں۔‘ انہوں نے طیبہ کو یقین دہانی کرائی کہ اس ہراسانی کے خلاف کارروائی ہو گی۔ طیبہ گل نے مزید کہا کہ چیئرمین نیب والی ویڈیو کا مجھے تو کوئی فائدہ نہیں ملا بلکہ حکومت نے وہ ویڈیو اُن کو دکھا کر اپنے مقاصد پورے کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیٹی روم میں طیبہ گل نے ثبوتوں کی ویڈیوز اور آڈیوز چلوائیں۔ آڈیوز سننے کے بعد چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمیں جاوید اقبال کو بھی سننا ہو گا کیونکہ یہ ایک قانونی تقاضا ہے۔ قائم مقام چیئرمین نیب نے کہا کہ محترمہ کے ساتھ مختلف مقامات پر مختلف معاملات ہوئے ہیں تو جس جس محکمے کی حدود بنتی ہے اُن کو بھی آن بورڈ لینا پڑے گا اور تحقیقات میں شامل کریں گے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جسٹس ر جاوید اقبال کو لاپتہ افراد کمیشن کے عہدے سے ہٹانے کی بھی سفارش کردی۔ نیز یہ سفارش کی گئی کہ ’وزیراعظم سےدرخواست ہے ایسے شخص کو لاپتہ افراد کے کمیشن کےعہدے سےفورا ہٹایا جائے، آئندہ اجلاس میں جاوید اقبال نہ آئے تو وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے۔‘

جمعرات کے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی سربراہی میں پارلیمنٹ کمیٹی روم نمبر دو میں ہوا۔ اجلاس کے آغاز میں ہی چیئرمین کمیٹی کی کمیٹی اجلاس کی کارروائی کے دوران موبائل فون بند کرنے کی ہدایت کر دی۔

قائم مقام چیئرمین نیب ظاہر شاہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاس میں بریفنگ کے موجود تھے جبکہ سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں آج بھی نہیں آئے۔

آمنہ جنجوعہ نے جیو نیوز کے پروگرام دوران انٹرویو میں بتایا تھا کہ چیئرمین نیب نے لاپتہ افراد کے کمیشن میں آنے والی ایک خاتون کو کہا کہ ’آپ اتنی خوبصورت ہیں آپ کو شادی کی کیا ضرورت ہے‘ انہوں نے کہا کہ ہم سب کی بیٹیاں ہیں، اس معاملے کو بہت سیریس لینا چاہیے۔ اس الزام پر چیئرمین کمیٹی نور عالم نے نوٹس لیتے ہوئے سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کو اجلاس میں وضاحت کے لیے طلب کر لیا تھا۔

سیاق و سباق

اس سے قبل گزشتہ ماہ 23 جون کو طیبہ گل نامی خاتون جن کی چیئرمین نیب کے ساتھ ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ انہوں نے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو خط لکھا تھا کہ اور مطالبہ کیا تھا کہ سابق چیئرمین نیب نے جو اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، جنسی طور پہ ہراساں کیا لہذا معاملے کو تحقیقات کی جائے اور سخت ایکشن لیا جائے۔ انہوں نے خط میں مزید کہا تھا کہ نیب افسران اُن کو ابھی تک بلیک میل کر رہے ہیں کہ میرے خلاف جھوٹا ریفرنس دائر کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی انہیں یعنی درخواست گزار اور سابق چیئرمین کو کمیٹی میں طلب کریں۔

اس کے علاوہ متاثرہ خاتون طیبہ گل نے ایک میڈیا انٹرویو میں یہ بھی دعوی کیا تھا کہ انہوں نے 2019 میں وزیراعظم سیٹزن پورٹل پہ شکایت درج کرائی تھی تو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے اُن سے ویڈیوز بطور ثبوت حاصل کیں اور بعد ازاں ویڈیوز وائرل ہو گئیں اور اُن کی شکایت کا ازالہ بھی نہیں ہوا تھا۔

چئیرمین کمیٹی نور عالم نے کہا کہ ’یہ تمام معاملات چیف جسٹس پاکستان کو بھی بھیجے جائیں گے۔ ایف آئی اے بھی معاملے کی تحقیقات کرے گی۔ جس نے جو حرکت کی ہے انہیں نشان عبرت بنایا جائے گا۔ تمام ملوث افسران کی جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتی تب تک انہیں معطل کر دیں۔ جو ایف آئی آر ہیں وہ تمام متعلقہ ایس ایچ اوز اور صوبائی حکومتوں کو بھجوا کر تحقیقات کرائیں گے۔‘

چئیرمین کمیٹی نے میڈیا نمائندوں کو طیبہ گُل سے بات کرنے سے منع کر دیا۔ میڈیا سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ جب ’وہ باہر جائیں تو اُن سے ابھی کوئی سوال نہ کرے۔ کیونکہ معاملہ ابھی کمیٹی میں ہے اور دوسرے فریق کا بیان ہونا باقی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان