بلوچستان کے شہر وِندر میں واقع پاکستان کی واحد ٹن پلیٹ بنانے والی فیکٹری صدیق سنز ٹن پلیٹ لمیٹڈ کی انتظامیہ نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کو ایک خط لکھ کر فیکٹری کی بندش کی اطلاع دی ہے۔
پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ترجمان سعید سومرو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پانچ ستمبر کو لکھے گئے خط کے مطابق کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چار ستمبر کے اجلاس میں فیکٹری بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سعید سومرو کے مطابق یہ فیصلہ سابق فاٹا اور پاٹا ریجنز میں حکومت کی جانب سے ٹیکس فری ٹن پلیٹ کی درآمدات سے مارکیٹ میں سستی ٹن پلیٹس کی فروخت، خوراک کی پیکجنگ کے لیے ٹن پلیٹس کے بجائے جست یا گیلویلوم کے استعمال کے باعث ٹن پلیٹس کی فروخت اور دیگر کاروباری مسائل کی بنیاد پر کیا گیا۔
کراچی سے تقریباً 95 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صدیق سنز ٹن پلیٹ لمیٹڈ کا قیام 1996 میں ہوا تھا۔ ویب سائٹ کے مطابق فیکٹری سالانہ ایک لاکھ 20 ہزار ٹن، ٹِن پلیٹ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، جس سے بنیادی طور پر خوردنی تیل، پھلوں، سبزیوں، سمندری غذاؤں، مشروبات، لبریکنٹ آئل اور کھانے کی دیگر اشیا کی پیکنگ کے استعمال کے لیے کینز اور کنٹینرز بنائے جاتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے کمپنی کی بندش کے معاملے پر تبصرے کے لیے صدیق سنز ٹن پلیٹ لمیٹڈ کے سربراہ طارق رفیع سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ٹن پلیٹ فیکٹری کی بندش کا ازسر نو جائزہ لے سکتے ہیں، اگر حکومت کھانے پینے کی اشیا کی پیکنگ کے لیے ٹن پلیٹس کے بجائے جست یا گیلویلوم کے استعمال کے صحت پر ہونے والے اثرات پر ایکشن لے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ سابق فاٹا اور پاٹا ریجنز میں ٹن پلیٹس کی درآمد پر سیلس ٹیکس اور انکم ٹیکس خاتمہ کرے۔‘
دوسری جانب صدیق سنز ٹن پلیٹ لمیٹڈ کی بندش کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے لسبیلہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر اسماعیل ستار نے کہا کہ ملک میں کاروبار کے موزوں حالات نہ ہونے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے اور دیگر مسائل کے باعث نہ صرف وِندر کی یہ فیکٹری بلکہ لسبیلہ میں بھی حالیہ عرصے میں کئی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اسماعیل ستار نے کہا: ’مختلف کمرشل اسباب کے باعث صنعتوں کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ کوئی فرد اربوں کی صنعت بند کرنے لیے تو نہیں لگاتا، مگر کاروباری حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ صنعتوں کا چلنا مشکل ہوگیا ہے۔
’آئے دن بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی نئے ٹیکسز لگائے گئے ہیں۔ وِندر میں فیکٹریوں کے لیے گیس ہی نہیں ہے۔ دو، تین صنعتیں تھیں، جو بند ہوگئی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’حَب میں بھی گذشتہ کچھ عرصے میں آٹھ سے 10 صنعتیں بند ہوگئی ہیں، جن میں دو سے تین سریا بنانے والی فیکٹریاں بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس وقت ملک میں کنسٹرکشن کا شعبہ ٹھپ ہوگیا ہے، اس لیے سریے کی فروخت میں بے پناہ کمی آئی ہے۔ جب فیکٹری میں تیار کی گئی اشیا فروخت ہی نہیں ہوں گی تو ایسے میں پیداوار کی قیمت بھی نہیں نکلتی، اس لیے یہ صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔‘
بقول اسماعیل ستار: ’حَب یا وِندر میں کارخانوں سے بھتہ لینے جیسے مسائل بھی نہیں ہیں بلکہ صنعتوں کے بند ہونے کی بڑی وجہ کمرشل مسائل ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ لسبیلہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ساتھ رجسٹرڈ بہت سی فیکٹریوں کی انتظامیہ ابتر کاروباری حالات سے پریشان ہیں۔
دوسری جانب کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر افتخار احمد شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان میں فیکٹریوں کے بند ہونے کی بڑی وجوہات میں کاروباری مسائل، بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور حکومت کی جانب سے زائد ٹیکسوں کے علاوہ صوبے میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورت حال ہے۔
افتخار احمد شیخ کے مطابق: ’بلوچستان میں مزدور آسانی سے مل جاتے ہیں اور کاروبار کے لیے بہتر مواقع موجود ہیں، مگر آئے دن امن و امان کے حوالے سے جو خبریں آتی ہیں، ان کے باعث صنعت کار ترجیح دیتے ہیں کہ وہ اپنے کارخانے بند کرکے کسی پر امن جگہ پر کام کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جیسے ماضی میں کراچی میں امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث کئی کارخانے بند ہو گئے اور ان کے مالکان نے کسی اور جگہ جاکر کاروبار شروع کردیا تھا، (اس صورت حال سے بچنے اور) بلوچستان میں صنعتوں کے فروغ کے لیے امن و امان کو بہتر بنانا ہوگا۔‘