قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ وہ پیر کی شب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین اسمبلی کی گرفتاری کے معاملے میں حقائق دیکھنے کے بعد کارروائی کریں گے۔
ایوان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سردار ایاز صادق نے کہا کہ انہوں نے اسمبلی کے تمام گیٹس کی ویڈیوز اور رپورٹس طلب کی ہیں تاکہ جس کی ذمہ داری ہے اس پر عائد کی جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایاز صادق نے کہا: ’میں نے نہ صرف سارے گیٹس کی ویڈیوز مانگی ہیں، صدر ہاؤس کے گیٹ کی، پانچ نمبر کی، مین انٹرنس کی، مین گیٹ کی، فینس کی، کیبنٹ کے گیٹ کی، اندر کی جتنی ویڈیو فوٹیج ہے وہ مجھے چاہییں تاکہ ہم نے جس کے اوپر ذمہ داری ڈالنی ہے، وہ ذمہ داری ڈالیں۔‘
سپیکر اسمبلی نے کہا: ’میں اپنے آپ کو بد قسمت سمجھتا ہوں کہ جب 2014 میں ایک جماعت نے اور ان کے کزن نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا، تو میں اس کرسی پر تھا۔ میں اپنے آپ کو اس لحاظ سے بدقسمت سمجھتا ہوں۔ وہ پہلا حملہ تھا پارلیمنٹ پر۔
’دوسرا پارلیمنٹ لاجز پر ہوا جب مولانا صلاح الدین ایوبی صاحب کے کمرے پر ریڈ ہوئی تھی۔ وہ بد قسمتی تھی، خواجہ آصف بھی وہاں تشریف رکھتے تھے، میں تھا، ہم بد قسمتی سے اس کا بھی حصہ بنے۔
’اور جو کل پارلیمنٹ میں ہوا ہے، جس طرح ساتھی بتا رہے ہیں تو، اگر وہ آئے ہیں، تو ہم نے اس کا بھی ایکشن لینا ہے۔ ہم نے خاموش نہیں رہنا۔‘
بقول ایاز صادق: ’2014 میں، میں نے خود ایف آئی آر کٹوائی تھی، جن لوگوں کا میں نے ذکر کیا ان کے خلاف، اور آج بھی اگر کٹوانی پڑی تو یہاں جو پولیس کا عملہ بیٹھا ہے، میں وہاں پر ایف آئی آر کٹواؤں گا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو مشاورت کے لیے اپنے چیمبر میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ ’اس پر لائحہ عمل بنائیں گے، اسے سنجیدگی سے لینا ہے۔‘
قومی اسمبلی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے کہا کہ وہ بہت مشکل سے پارلیمنٹ پہنچے۔ ’سیاست میں گرفتاریاں ہوتی ہیں، مجھے سات بار گرفتار کیا گیا۔ کل رات پارلیمنٹ کے ساتھ کیا ہوا؟ ہمارے اراکین نے پارلیمنٹ میں پناہ لی اور جمشید دستی کو مسجد سے اٹھایا گیا۔ کل رات پاکستان کی جمہوریت کا نو مئی تھا۔‘
بعد ازاں اجلاس میں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے سے متعلق بل پیش کیا گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ یہ بل سینیٹ میں آ چکا ہے اور کمیٹی میں بھیجا گیا ہے، اس بل پر کوئی اعتراض نہیں اس کو کمیٹی میں بھیجا جائے۔
اس سے قبل قومی اسمبلی کے ڈائریکٹر جنرل میڈیا ظفر سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین کو گذشتہ روز گرفتار کیے جانے سے قبل سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو آگاہ کیا گیا تھا۔
قومی اسمبلی کے قاعدہ 103 کے تحت کسی بھی رکن سے متعلق سپیکر کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔
پی ٹی آئی کے اراکین پر سنگ جانی کے مقام پر آٹھ ستمبر کے جلسے کے دوران ایس او پیز کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔
پارٹی کا کہنا تھا کہ ان کے 13 رہنما گرفتار کیے گئے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا امین گنڈاپور چھ گھنٹے تک ’غائب‘ رہنے کے بعد واپس پشاور پہنچ گئے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا کے لیے عمران خان کے مشیر ذلفی بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ پارٹی کے 12 رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا، جن میں 11 اراکین قومی اسمبلی شامل ہیں۔ گرفتار کیے گئے جن رہنماؤں کے نام سامنے آئے تھے، ان میں بیرسٹر گوہر علی خان، شیر افضل خان مروت، شیخ وقاص اکرم، ملک عامر ڈوگر، شعیب شاہین، زبیر خان، مخدوم زین قریشی، احمد چٹھہ، سید احد شاہ، شفقت اعوان، سید نسیم شاہ اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے رکن شامل تھے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے رہنما صاحبزادہ حامد رضا کی بھی گرفتاری کی اطلاعات تھیں۔
تاہم منگل کو اسمبلی کے اجلاس میں صاحبزادہ حامد رضا ایوان میں بیٹھے نظر آئے۔ اس حوالے سے سوال پر ذلفی بخاری نے کہا بتایا کہ ’پی ٹی آئی کے چھ رہنماؤں کو گرفتار گیا ہے جن میں گوہر خان، زین قریشی، نسیم شاہ، شیخ وقاص اکرم، شیر افضل مروت اور عامر ڈوگر شامل ہیں۔‘
پارلیمان سے گرفتاریوں کا معاملہ، پیپلز پارٹی کا انکوائری کا مطالبہ
حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے اجلاس کے دوران کہا کہ ’جو الزامات سامنے آ رہے ہیں میرے پاس یقین کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور آئین پر سراسر حملہ ہے، پارلیمنٹ کے گیٹ کے اندر اراکین کو گرفتار کیا جاتا ہے تو کیا بچا ہے؟‘
نوید قمر نے سپیکر سے تحقیقات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو سنجیدہ انکوائری کر کے کاروائی کرنا پڑے گی، اگر کاروائی نہیں ہوگی تو یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔‘
جب فوج نے آپ کو لانچ کیا ہو تو اپ بار بار ان کے پاس جاتے ہیں: وزیر دفاع
اجلاس میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’جب آپ کہیں کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں تو اس کا کیا ری ایکشن آئے گا، اس قسم کی باتیں کل کے ری ایکشن کو جواز فراہم کرتی ہیں۔
’کل کا عمل پرسوں کا ری ایکشن تھا، پاکستان کے وجود کو پرسوں چیلنج کیا گیا اور پاکستان کے فیڈریشن کو چیلنج کیا گیا۔ اس کے بعد آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟‘
خواجہ آصف نے کہا ’یہ جب بھی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں فوج سے بات کرنی ہے، جب فوج نے آپ کو لانچ کیا ہو تو اپ بار بار ان کے پاس جاتے ہیں۔ کل کا واقعہ ایک تسلسل کا حصہ ہے، نو مئی میں سارے کے سارے ملٹری ٹارگٹ چنے گئے۔ کیا اس کے بعد کسی تحفظ کی توقع کی جا سکتی ہے؟‘
اس دوران علی محمد خان نے خواجہ آصف کی تقریر میں مداخلت کرتے ہوئے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
تحریک انصاف رہنماؤں کی حراست
پاکستان تحریک انصاف کے مطابق رکن پارلیمنٹ شیر افضل مروت اور چیئرمین بیرسٹر گوہر کو پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر سے حراست میں لیا گیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ایکس پر جاری ویڈیو کے مطابق شعیب شاہین کو ان کے دفتر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر سمیت پیر کو گرفتار کیے گئے دیگر رہنماؤں کو تھانہ سیکریٹریٹ منتقل کیا، جنہیں آج ضلعی عدالتوں میں پیش کیے جانے کی توقع ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون کے داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے گیے ہیں۔ ڈی چوک، نادرا چوک، سرینا اور میریٹ کے مقام سے ریڈ زون ہے۔ اسی طرح شہر کے دیگر حصوں سے بھی کنٹینر نہیں ہٹائے گئے، جو سڑک کنارے پڑے ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے باضابطہ طور پر گرفتاریوں کی تعداد یا وجہ کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے لیکن پولیس کے ترجمان تقی جواد نے پیر کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو جلسے کے لیے دی گئی این او سی کی خلاف ورزی کرنے پر ایسا کیا گیا ہے۔‘
ترجمان اسلام آباد پولیس نے مزید کہا تھا کہ ’تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد گرفتاریوں کا عمل شروع کیا گیا۔‘
اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو آٹھ ستمبر کو سنگجانی کے مقام پر جلسے کے لیے جو این او سی جاری کیا گیا تھا، اس کے تحت انہیں شام سات بجے تک جلسہ ختم کرنا تھا، تاہم پی ٹی آئی کا جلسہ مقررہ وقت سے تقریباً تین گھنٹے تاخیر سے ختم ہوا جس پر اسلام آباد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔
پی ٹی آئی نے سوشل ویب سائٹ ایکس پر الزام عائد کیا کہ ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کہنے والی سیاسی جماعتیں، غیر جمہوری قوتوں کی گود میں بیٹھ کر جمہوریت کا جنازہ نکال رہی ہیں۔‘