صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں جمعے کو سوات قومی جرگہ کے تحت ایک احتجاجی جلسے میں متفقہ طور پر علاقے میں فوجی آپریشن اور کسی قسم کی ‘منصنوعی دہشت گردی’ کو مسترد کر دیا گیا۔
سوات کے مرکزی بازار مینگورہ میں ہوئے جلسے میں وکلا، تاجر تنظیموں، مختلف سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف کے منتخب اراکین اور سول سوسائٹی نے شرکت کی۔
مقررین نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علاقے میں پائیدار امن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سوات ایک پرامن علاقہ ہے لیکن اس کو دوبارہ دہشت گردی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جو کسی طور پر قبول نہیں۔
سوات قومی جرگے کے رکن خالد محمود نے اپنے خطاب میں کہا کہ سوات کو پاکستان کے ساتھ اس لیے ضم نہیں کیا گیا تھا کہ یہاں پر ریاست اپنے مفادات کے لیے شدت پسندی کو فروغ دے۔
’ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ سوات کے پہاڑوں میں شدت پسند موجود ہیں، اگر ایسا ہے تو یہ ریاستی ناکامی کی ثبوت ہے۔‘
خالد محمود نے بتایا، ‘ہم سوات میں مزید بدامنی اور شدت پسندی کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ سوات کا بچہ بچہ واقف ہے کہ ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے سوات کا یہ حال ہو گیا ہے۔‘
ملاکنڈ بار ایسوسی ایشن کے صدر شمس الہادی نے اپنے خطاب میں کہا ریاست میں آئین شہریوں اور ریاست کے مابین ایک معاہدہ ہوتا ہے اور آئین کے تحت لوگوں کے حقوق ہوتے ہیں۔
شمس الہادی کے مطابق سوات اور اس خطے میں شدت پسندی کو ختم نہیں ہونے دیا جا رہا اور آج کا جلسے سے ایک تحریک کا آغاز ہو گا جس کے لیے ہماری قانونی اور آئینی جنگ جاری رہے گی۔‘
انہوں نے بتایا، ’اگر ریاست شدت پسندی کو ختم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے تو عوام کو ریاستی پالیسیوں کے خلاف اٹھنا پڑے گا اور اس کا ایک پر امن حل نکالنا پڑے گا۔‘
پاکستان فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے گذشتہ ماہ ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ عزم استحکام کوئی فوجی آپریشن نہیں بلکہ دہشت گردی ختم کرنے کی ایک مہم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا تھا، ‘عزم استحکام کو متنازع بنانے کے لیے ایک بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سول اور ملٹری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس مہم کا اغاز پورے ملک میں کر دیا ہے۔
’یہ ہماری بقا کی جنگ ہے اور ہم سیاست کی وجہ بہت سنجیدہ مسائل کو مذاق میں لیتے ہیں۔‘
سوات میں حالیہ کچھ مہینوں سے شدت پسندی کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جس میں حالیہ واقعہ اتوار کو اس وقت پیش آیا جب مختلف ممالک کے سفیروں کے قافلے میں شامل سکیورٹی موبائل وین سڑک کنارے بم دھماکے کا نشانہ بنی تھی۔
اس حملے میں ایک پولیس اہلکار جان سے گیا تھا۔
مٹہ میں کچھ روز قبل رات کو نامعلوم افراد اور پولیس کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا جس کے بعد علاقے کے لوگوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایوب خان اشاڑے کی سربراہی میں پولیس کے ساتھ مل کر حملہ آوروں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔
سوات 2007 سے لے کر 2011 تک شدت پسندی کے لپیٹ میں رہ چکا ہے اور اس عرصے میں یہاں شدت پسندوں نے اپنا تسلط قائم کر رکھا تھا جس کے بعد علاقے کو فوجی آپریشن کے ذریعے کلیئر کیا گیا تھا۔