روبینہ سہیل ایک بیوہ گھریلو خاتون اور نان فائلر ہیں۔ وہ لوگوں کے کپڑے سی کر گھر کا خرچ چلاتی ہیں۔
بڑی بیٹی کے جہیز کے لیے کچھ پیسے جوڑ کر رکھے ہیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوا کر یہ رقم میوچل فنڈ میں جمع کروا دیں گی۔
اسی دوران انھوں نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ ایف بی آر نان فائلر کی کیٹیگری ختم کرنے اور ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والوں پر مزید پابندیاں لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے پاکستان کے کسی بینک میں اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکیں گے، جائیداد، گاڑی نہیں خرید سکیں گے، میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری نہیں کر سکیں گے اور سب سے بڑھ کر وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکیں گے۔
اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے ٹیکس فائلر کی شرط کا سننے کے بعد وہ پریشان ہو گئی ہیں کیونکہ وہ کسی ٹیکس والے کو نہیں جانتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر سرکار فائلر کی شرط رکھنا چاہتی ہے تو اس کے لیے سرکاری سطح پر ٹیکس وکیل بھی فراہم کرے جو مجھ جیسی بے سہارا اور سادہ گھریلو خاتون کو ٹیکس نیٹ میں رجسٹر کرے اور ٹیکس ریٹرن فائل کرے۔‘
اگر سرکار یہ سہولت نہیں دیتی تو وہ رقم گھر میں ہی محفوظ رکھنے کو ترجیح دیں گی۔
فرحان محمود تعلیم کے لیے لاہور کے ایک ہوسٹل میں رہتے ہیں۔ ان کا تعلق بہاول پور سے ہے۔ اگلے سمسٹر کی فیس گھر سے منگوانے کے لیے وہ بینک اکاؤنٹ کھلوانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لیکن نئی شرائط سننے کے بعد وہ پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میری کوئی آمدن نہیں، پھر بھی میرے لیے ٹیکس فائلر کی شرط لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
انھوں نے سن رکھا ہے کہ ٹیکس والے بہت پریشان کرتے ہیں، نوٹس آتے ہیں اور ایف بی آر بینک اکاؤنٹ سے پیسے نکال لیتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اتنی پیچیدگیوں میں پڑنے سے بہتر ہے کہ وہ گھر سے کیش لا کر اگلے سمسٹر کی فیس ادا کردیں۔
شاہد اکرم اپنے دو بچوں اور بیوی کے ساتھ دسمبر میں نیو ایئر کے موقعے پر برطانیہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان کی بیوی اور بچے فائلر نہیں۔ وہ آج کل میں ٹکٹس خریدنا چاہتے ہیں لیکن چیئرمین ایف بی آر کے اعلان کے بعد وہ کنفیوز ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایف بی آر جلد پالیسی واضع کرے کہ ایک فیملی کا سربراہ اگر فائلر ہے تو کیا بیوی اور بچوں کا فائلر ہونا ضروری ہوگا یا نہیں؟
اگر بیوی اور بچوں کے بھی فائلر کرنے کی شرط عائد کر دی گئی تو اس پر عمل درآمد مشکل ہو جائے گا اور ان کا لندن کا ٹرپ خراب ہو جائے گا۔
بلال اسلم فیکٹری کے مالک ہیں اور وہ درآمدات اور مینوفیچرنگ کرتے ہیں۔ ان کا کاروبار رجسٹرڈ ہے اور وہ فائلر بھی ہیں۔
وہ حکومت کے فیصلے سے خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’نان فائلر کی ٹرم مضحکہ خیز ہے۔ یہ کالے دھن کو سفید کرنے کے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔
’تھوڑا سا زیادہ ٹیکس جمع کروا کر اربوں روپے کی فیکٹریاں خریدی جاتی ہیں اور پیسہ کہاں سے آیا اس بارے میں کوئی سوال نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ اس فیصلے سے کالا دھن سسٹم میں لایا جا سکے۔‘
نئی پالیسی کا سن کر بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی پریشان ہیں۔ میاں صفدر برطانیہ میں مقیم ہیں۔ وہ نان فائلر ہیں اور پاکستان میں میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
وہ اس خبر سے پریشان ہو گئے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کیا ایف بی آر ان کا اکاؤنٹ بلاک کر دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو وہ کروڑوں روپوں سے محروم ہو جائیں گے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نان فائلر کچھ نہیں ہوتا۔ چور کو چور کہنا پڑے گا۔ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والوں کو ہر کام کرنے کی اجازت دینا ہی غلط ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پوری دنیا میں ایسی کوئی ٹرم استعمال نہیں ہوتی۔ حکومت نے یہ بہترین فیصلہ کیا ہے۔ جب میں چیئرمین ایف بی آر تھا تو میں نے بھی نان فائلر کی ٹرم ختم کی تھی۔
’لیکن پی ٹی آئی کی حکومت دباؤ برداشت نہیں کر سکی اور اس ٹرم کو دوبارہ بحال کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت دباؤ برداشت کر پاتی ہے یا نہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ملک میں تین طرح کے لوگ ہیں۔ ایک فائلر، دوسرے نان فائلر اور تیسرے وہ جنھیں گوشوارے جمع کروانے کی requirement ہی نہیں۔ ان میں تفریق کرنا ضروری ہے، ورنہ معصوم لوگ بلاوجہ گھیرے میں آ جائیں گے۔‘
لاہور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکریٹری عبدالوحید کے مطابق ’ممکن ہے کہ اس عمل سے حکومت کو کچھ فائدہ ہو جائے لیکن نقصان ہونے کے بھی خدشات ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’پچھلے مالی سال میں 1.33 کھرب ودہولڈنگ ٹیکس اکٹھا کیا گیا تھا، جس میں سے 423 ارب روپے کلیم نہیں کیے گئے۔
’اس کامطلب ہے کہ نان فائلرز نے 423 ارب روپے ٹیکس جمع کروایا۔ اگر ان نان فائلرز کو فائلرز بنا دیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق ان سے 15 سو ارب روپے ٹیکس بآسانی وصول کیا جا سکتا ہے۔
’لیکن اگر ان نان فائلرز کو فائلر نہ بنایا جا سکا تو ان سے وصول ہونے والے تقریباً 423 ارب روپے کے ٹیکس سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔‘
سابق صدر پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن محسن ندیم نے کہا کہ ’پاکستان میں مڈل اِنکم گروپس میں ٹیکس کمپلائنس 94 فیصد ہے جبکہ ایک فیصد امیر طبقے کی ٹیکس کمپلائنس صرف 29 فیصد ہے۔
’اس لیے امیر طبقے پر ٹیکس لگانا زیادہ ضروری ہے۔ نان فائلر ٹرم ختم کرنے سے غریب کی بجائے امیر طبقہ زیادہ متاثر ہوگا۔ نئے اقدامات سے ٹیکس بیس بڑھنے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔‘