آئین کے آرٹیکل 63 کی تشریح سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران منگل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ضمیر کے معاملات کے فیصلے کرنا مشکل، جبکہ حقائق پر فیصلے کرنا آسان ہوتا ہے۔ ضمیر کا فیصلہ کون کرے گا؟
انہوں نے مزید کہا کہ ’لوگوں کے ضمیر میں کون جھانکے گا؟ کیا جو روز پارٹی تبدیل کرتے ہیں وہ ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرتے ہیں یا وہ بے ایمان ہیں؟ ہم بطور جج کیسے فیصلہ کریں کہ ایک بندہ ضمیر کی آواز پر ووٹ دے رہا ہے یا نہیں؟ ہم کون ہوتے ہیں کسی کے ضمیر کا فیصلہ کرنے والے؟‘
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں نظرثانی درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، اور جسٹس مظہر عالم شامل تھے۔
آج کی سماعت میں صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے دلائل دیتے ہوئے کیس کا پس منظر بتایا اور کہا کہ ’اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور 184/3 کی درخواستیں بھی تھیں۔ ہماری گزارش ہے کہ فیصلے کو واپس لیا جائے۔‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’بتائیں فیصلے میں کیا غلط ہے؟‘ شہزاد شوکت نے جواب دیا: ’یہ فیصلہ آئین دوبارہ لکھنے جیسا ہے۔ نظرثانی درخواست خالصتاً آئینی مسئلہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ریفرنس پر رائے اور 184/3 دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، دونوں کو یکجا کر کے فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟ صدارتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے، فیصلہ نہیں۔ کیا دونوں دائرہ اختیار مختلف نہیں ہیں؟ کیا اس وقت عدالت نے دونوں معاملات کو یکجا کرنے کی وجوہات پر کوئی آرڈر جاری کیا؟ صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے قانونی سوالات کا جواب دیا جاتا ہے، صدارتی ریفرنس پر دی گئی رائے پر عمل نہ ہو تو صدر کے خلاف توہین کی کارروائی تو نہیں ہو سکتی۔ اس وقت صدر کون تھا؟‘
شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ ’اس وقت عارف علوی صدر تھے۔‘ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’وہی حکومت بطور حکومت بھی اس کیس میں درخواست گزار تھی۔‘ مزید پوچھا کہ ’صدر کی جانب سے قانونی سوالات کیا اٹھائے گئے تھے؟‘
شہزاد شوکت نے بتایا کہ ’صدر پاکستان نے ریفرنس میں چار سوالات اٹھائے تھے۔ آرٹیکل 63 اے کے تحت خیانت کے عنصر پر رائے مانگی گئی تو عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کو اکیلا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لیے اہم ہیں اور پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کے لیے کینسر ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا: ’کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟‘
شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ ’یہ رائے صدر کے سوال کا جواب نہیں تھی۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جا سکتا۔ ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی آواز سے متعلق تھا۔ فیصلے میں آئین پاکستان کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔‘
چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ ’ابھی آپ ایسے دلائل نہ دیں، بنیادی حقائق مکمل کریں۔ ریفرنس کے سوال میں انحراف کے لیے کینسر کا لفظ لکھا گیا۔ یہ لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا؟ آپ بتائیں آپ کو اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے؟ آپ کو اعتراض اقلیتی فیصلے پر ہے یا اکثریتی فیصلے پر؟‘
شہزاد شوکت نے جواباً کہا کہ ’ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر بندہ نااہل ہو گا؟ فیصلہ تو معاملہ پارٹی سربراہ پر چھوڑ رہا ہے۔ پارٹی سربراہ کی مرضی ہے کہ وہ چاہے تو اسے نااہل نہ کرے۔ پارٹی سربراہ اگر ڈیکلریشن نااہلی کا بھیجے ہی نہ تو پھر کیا ہو گا؟‘ شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ ’پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔‘
چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ ’کیا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ووٹ دینے اور نہ گنے جانے پر فوری نااہلی ہو گی؟‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’نہیں، فیصلے میں ایسا نہیں کہا گیا۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ آرٹیکل 95 تو غیر فعال ہو گیا۔ ووٹنگ کی مشق ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اسے گنا بھی جائے۔ ووٹنگ میں کچھ لوگ غائب بھی ہو جاتے ہیں، کچھ بھاگ جاتے ہیں۔ اگر ارکان کسی جماعت کے کہنے پر ووٹ نہ کریں اور بھاگ جائیں تو کیا ہو گا؟ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ووٹ گنا نہیں جائے گا۔ جب وہ ووٹ کاسٹ ہی نہ ہو، پھر کیا ہو گا؟‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’کیا عدالت نے فیصلے میں آرٹیکل 95 پر کچھ کہا؟ کسی جماعت کا رکن پارٹی سربراہ کو پسند نہ کرے اور ہٹانا چاہے تو کیا کیا جائے گا؟ اگر اراکین کا ووٹ تک گنا ہی نہیں جا سکتا تو کیا کیا جائے گا؟‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’بلوچستان میں انہی دنوں اپنی ہی جماعت کے لوگ اپنے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد لائے تھے۔‘
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’فیصلے میں کہا گیا کہ انحراف کرپٹ پریکٹس جیسا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی ایک مثال موجود نہیں جس میں انحراف ضمیر کی آواز پر کیا گیا ہو۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’کیا سچ میں ایسا لکھا گیا ہے؟‘ اس پر شہزاد شوکت نے متعلقہ پیراگراف پڑھ کر سنایا۔
وکیل شہزاد شوکت نے عدالت سے کہا کہ ’پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی سربراہ الگ الگ ہدایات دیں تو کیا ہو گا؟ ایسے میں تعین کیسے کیا جا سکتا ہے کہ کس کی ہدایات ماننا ضمیر کی آواز ہو گا؟‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آرٹیکل 62/1 ایف پر جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ موجود ہے۔ فیصلے میں وضاحت موجود ہے کہ نااہلی سے متعلق کون سی شقیں ازخود نافذ ہوتی ہیں اور کون سی نہیں۔‘
منگل کے روز سماعت کے آغاز میں صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت اور پی ٹی آئی وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ ’ہم نے جسٹس منیب اختر کو بینچ میں شمولیت کی درخواست کی تھی، لیکن وہ اپنے پہلے والے مؤقف پر قائم ہیں، اس کے بعد صبح پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں جسٹس منصور علی شاہ کو شرکت کے لیے کہا گیا لیکن وہ نہیں آئے۔ اس کے بعد ہم نے بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان کو شامل کیا ہے۔‘
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھانے کی کوشش کی، لیکن چیف جسٹس نے منع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت صاحب آپ ہی کی نمائندگی کر رہے ہیں، کبھی تو جمہوریت کا احترام کریں۔ یہ اپیل چونکہ وفاق نے دائر کی ہے، اس لیے پہلے دلائل دینے کا حق اٹارنی جنرل کا ہے۔‘
چیف جسٹس نے علی ظفر سے مزید کہا کہ ’آپ کو ضرور سنیں گے لیکن ابھی آپ تشریف رکھیں۔‘
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ ’نظر ثانی درخواست تین دن کی تاخیر سے دائر ہوئی جس پر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا جبکہ درخواست گزار کے مطابق تفصیلی فیصلہ موجود ناہونے پر نظر ثانی تاخیر سے دائر ہوئی، رجسڑار آفس معلوم کرے تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا، دوران سماعت کئی سوالات سامنے ائے، سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کی جاتی ہے، فریقین برطانیہ، امریکہ سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے اگاہ کریں۔‘
آرٹیکل 63 اے تشریح پر نظرثانی کیس: جسٹس نعیم اختر افغان بینچ میں شامل
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے منگل کو جسٹس نعیم اختر افغان کو آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق مقدمے میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ میں شامل کرلیا۔
عدالتی ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا لیکن جسٹس منصور علی شاہ کے کمیٹی اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ میں شامل کیا گیا۔
جسٹس نعیم اختر افغان کی شمولیت سے پانچ رکنی لارجر بینچ مکمل ہو گیا ہے جو آرٹیکل 63 اے کے معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق مقدمے میں نظرثانی درخواستوں میں پانچ رکنی بینچ میں ایک جج کی عدم شمولیت اور اس سے قبل پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ کی غیر حاضری سے ججوں کے چیف جسٹس سے اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس منگل کی صبح ہوا۔
یہ اجلاس آرٹیکل 63 اے کی نظرثانی درخواستوں کی سماعت میں جسٹس منیب اختر کے بینچ میں نہ بیٹھنے سے متعلق لکھے گئے خط کے بعد بلایا گیا تھا۔
کمیٹی نے گذشتہ اجلاس میں 2018 سے زیرالتوا 14 نظرثانی درخواستوں پر نو لارجر بینچ تشکیل دیے تھے اور معمول کے مقدمات کی سماعت کے لیے سات بینچوں کی تشکیل کا ججز روسٹر بھی جاری کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے سینیئر صحافی سہیل رشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بنیادی طور پر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے جس تنازعے کو حل کر لیا گیا تھا اور فل کورٹ نے اس کا جائزہ لے کر قرار دیا تھا کہ اب تین سینیئر ترین جج ہی بیٹھ کر بینچز تشکیل دیں گے، آرڈیننس کے ذریعے اس میں ترمیم کر کے تیسرا ممبر مرضی کا رکھنے کا جو اختیار چیف جسٹس کو دیا گیا، اس سے سینیئر ججز میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
پھر چیف جسٹس نے فوری کمیٹی کی تشکیل نو بھی کر لی اور جسٹس منیب کو نکال کر پانچویں نمبر کے جسٹس امین الدین خان کو شامل کیا، جو چیف جسٹس کے ہم خیال تصور کیے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پھر ان سب چیزوں کی ٹائمنگ پر بھی سوالات زیادہ ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم لا رہی ہے اور اسے دو تہائی اکثریت کے نمبرز پورے کرنے میں مشکلات ہیں، آرڈیننس لا کر چیف جسٹس کو کمیٹی پر زیادہ اختیار دینا اور پھر نئی کمیٹی کا، جس میں جسٹس منصور بیٹھے بھی نہیں، 250 سے زیادہ نظرثانی درخواستیں چھوڑ کر 63 اے کا کیس اٹھانا، اس پر سینیئر ججوں کو تحفظات ہیں۔‘
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا فیصلہ دو برس قبل مئی 2022 میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے دیا تھا۔ وہ فیصلہ تین دو کی نسبت سے آیا تھا۔ بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم، اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے اور اس کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔
ابھی جو بینچ بنایا گیا ہے اس میں تین ججز وہی ہیں جو پہلی سماعت میں بھی موجود تھے۔ ان میں جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایڈہاک جج تعینات ہونے والے جسٹس مظہر عالم خیل کے نام شامل ہیں جبکہ اس کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان ہیں۔ اگر جسٹس منیب اختر جنہوں نے پہلا فیصلہ تحریر کیا تھا وہ بینچ کا حصہ نہیں ہوتے تو آئینی طور پر اس میں کیا گنجائش ہے؟
سابق جج اور سینیئر وکیل شاہ خاورنے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے قوانین کے مطابق جس جج نے فیصلہ تحریر کیا ہو اور جو جج پہلی سماعت کا حصہ ہوں، انہیں نظر ثانی بینچ میں ترجیح دی جاتی ہے اور ضرور شامل کیا جاتا ہے، لیکن اگر متعلقہ جج میسر نہ ہوں یا خود بینچ میں بیٹھنے سے اعتراض کریں تو یہ چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے جج کو بینچ میں شامل کر لے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں جو ترمیم ہوئی ہے وہ آرڈیننس کے ذریعے اب قانون بن چکا ہے اور آرٹیکل 5 کے مطابق یہ ہر پاکستانی شہری پر فرض ہے کہ وہ آئین و قانون پر عمل کرے، چاہے اسے وہ قانون پسند ہے یا نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں نہیں بیٹھے کہ اس میں چیف جسٹس نے نئے قانون کے تحت اپنی مرضی کے جج کو شامل کیا، جس پر جسٹس منصور کو اعتراض تھا، جسٹس منیب کو کیوں نہیں بٹھایا۔ ایک سینیئر جج ہی جب قانون کو نہ مانے اور ان کے بعد جسٹس منیب بھی اسی کمیٹی کے اجلاس کے تحت بننے والے بینچ پر اعتراض کریں گے تو یہ اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں ذاتی پسند نا پسند نہیں بلکہ قانون کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔‘
آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی درخواستوں کی سماعت
آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق درخواستوں کی سماعت کا جب پیر کو آغاز ہوا تو کمرہ عدالت نمبر ایک میں پانچ میں سے چار جج موجود تھے جبکہ بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر کی نشست خالی رہی۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کو جسٹس منیب اختر نے اپنی عدم حاضری کی وجوہات کے لیے خط لکھ دیا جسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں جسٹس منیب اختر کے خط کی آخری سطور پڑھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے کہا کہ ’جسٹس منیب اخترنے آج مقدمات کی سماعت کی ہے وہ ٹی روم میں بھی موجود تھے۔ ان کا آج کی سماعت میں شامل نہ ہونا ان کی مرضی تھی۔ ہم کل دوبارہ اس نظرثانی کیس کی سماعت کریں گے۔ امید کرتے ہیں کہ جسٹس منیب اختر کل سماعت میں شامل ہوں گے۔ جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ یہ معاملہ دو سال سے زیر التوا ہے اس لیے وہ بینچ میں آئیں۔ ہم جسٹس منیب اختر کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ بینچ کی تشکیل نو ہو گی۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’جسٹس منیب اختر کو اگر کچھ کہنا تھا تو وہ بینچ میں بیٹھ کر کہہ سکتے تھے۔ بینچ بننے کے بعد معذرت اوپن کورٹ میں ہی کی جا سکتی ہے۔ میں نے تو ہمیشہ اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ انہوں نے جو خط لکھا اس میں بینچ کو مخاطب بھی نہیں کیا گیا بلکہ انہوں نے رجسٹرار کو مخاطب کیا۔‘
دورانِ سماعت عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے تین کی بجائے دو اراکین کی جانب سے 63 اے نظرثانی کیس کے بینچ کی تشکیل پر اعتراض بھی اٹھا دیا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’وہ کمیٹی تب ہی بینچ بنا سکتی ہے جب تینوں ممبران موجود ہوں۔ قانون کے مطابق تینوں ممبران کا کمیٹی میں بیٹھنا ضروری ہے۔‘ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’میں بیرسٹر علی ظفر آپ سے متفق نہیں ہوں۔ ایک شخص کی صوابدید پر تمام سائلین کے مقدمات نہیں چھوڑے جا سکتے اس طرح تو عدالت غیر فعال ہو جائے گی۔‘
جسٹس منیب اختر کا خط
جسٹس منیب اختر نے خط میں کہا کہ کمیٹی پر اعتراض کی وجہ سے بینچ میں نہیں بیٹھوں گا بینچ کی تشکیل میں درست قانون کا اطلاق نہیں کیا گیا، کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا مگر کمیٹی جس پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے بنچ تشکیل دیا ہے، اس کمیٹی کے تشکیل کردہ بنچ کا حصہ نہین بن سکتا، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے، میرے خط کو نظرثانی کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
جسٹس منیب اختر کا دوسرا خط
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس منیب اختر نے پیر کو 63 اے نظر ثانی سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری ہونے کے بعد رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک اور خط لکھا ہے۔
تحریری حکم نامہ جاری ہونے پر جسٹس منیب نے اعتراض کر دیا اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے خط میں کہا کہ ’حکم نامے میں میرا نام لکھا ہوا ہے مگر آگے دستخط نہیں ہیں۔ چار ججوں نے بیٹھ کر کیسے حکم نامہ جاری کر دیا۔‘
خط میں لکھا گیا ہے کہ ’پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کرنا تھی، چار رکنی بنچ عدالت میں بیٹھ کر آرٹیکل 63 اے سے متعلق نظرثانی کیس نہیں سن سکتا، آج کی سماعت کا حکم نامہ مجھے بھیجا گیا، حکم نامے میں میرا نام لکھا ہوا مگر آگے دستخط نہیں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بنچ میں بیٹھنے والے چار ججز قابل احترام ہیں مگر آج کی سماعت قانون اور رولز کے مطابق نہیں، اپنا موقف پہلے خط میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں، آج کی سماعت کے حکمنامے پر احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتا ہوں۔
’آج کی سماعت کا حکمنامہ جوڈیشل آرڈر نہیں، آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی کیس کے حکمنامہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘
حکم نامہ میں رجسٹرار کو ہدایت کی گئی کہ حکم نامے کی کاپی جسٹس منیب اختر کو فراہم کی جائے اور انہیں پانچ رکنی بینچ میں شمولیت کی درخواست بھی کی جائے اور اگر جسٹس منیب اختر کی بینچ میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہیں تو ان کی عدم شرکت پر بینچ از سر نو تشکیل دیا جائے گا۔
حکم نامہ کے مطابق کیس میں بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر بانی کو نمائندگی کی اجازت دی گئی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا خط
23 ستمبر کو سپریم کورٹ میں ہونے والے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اجلاس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین خان اور سیکرٹری جزیلہ اسلم نے شرکت کی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ کو سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں جو کمیٹی کے رکن بھی ہیں لیکن انہوں گزشتہ ہفتے 23 ستمبر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں ہونے والا پریکٹس اینڈ پروسیجر کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی اور خط لکھ کر چیف جسٹس کو اپنے تخفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک فل کورٹ آرڈیننس کا جائزہ نہ لے کمیٹی میں نہیں بیٹھ سکتا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول خط کی کاپی کے مطابق خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’آرڈیننس آنے کے بعد بھی سابقہ کمیٹی کام جاری رکھ سکتی تھی، آرڈیننس کمیٹی کی تشکیل نو لازمی نہیں قرار دیتا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’آرڈیننس آنے کے گھنٹوں بعد ہی کمیٹی کی تشکیل نو کر دی گئی، کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کہ جسٹس منیب اختر کو کیوں ہٹایا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آرڈیننس پر فل کورٹ میٹنگ بھی بلائی جا سکتی ہے، اس وقت تک اگر چیف جسٹس سابقہ کمیٹی بحال نہیں کرتے تو میٹنگ میں نہیں بیٹھوں گا، یہ نہیں بتایا گیا کہ جسٹس منیب کے بعد والے سینئر جج کو بھی کیوں نظرانداز کیا گیا۔‘
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم
صدر مملکت کے دستخط کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 20 ستمبر کو جاری کیا گیا۔ نئے آرڈینننس کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 2 کی ذیلی شق ایک کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کمیٹی مقدمات مقرر کرے گی، کمیٹی چیف جسٹس، سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل ہو گی۔ جبکہ اس سے قبل پہلے تین سینئر ججوں پر مشتمل کمیٹی تھی جس میں چیف جسٹس کے ساتھ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
آرڈیننس میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 3 میں ترمیم بھی شامل ہے جس کے مطابق سماعت سے قبل مفاد عامہ کی وجوہات دینا ہوں گی۔ منظور آرڈیننس کے سیکشن 7 اے کے تحت ایسے مقدمات جوپہلے دائر ہوں گے انھیں پہلے سنا جائے گا، اگر کوئی عدالتی بینچ اپنی ٹرن کے برخلاف کیس سنے گا تو وجوہات دینا ہوں گی۔