انڈیا کی مقامی برادری کے ساتھ تعلق رکھنے والی شاعرہ اور مصنفہ نے فلسطینی عوام کے ساتھ ’اظہار یکجہتی‘ کرتے ہوئے امریکی حمایت یافتہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔
41 سالہ جسنتہ کرکیتا نے 2024 کا روم ٹو ریڈ ینگ آتھر ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ہے جو یو ایس ایڈ اور روم ٹو ریڈ انڈیا ٹرسٹ کی جانب سے ان کی بچوں کی شاعری کی کتاب ’جرہل‘ کے لیے مشترکہ طور پر دیا جا رہا تھا۔
روم ٹو ریڈ انڈیا ایک بین الاقوامی غیر منافع بخش تنظیم ہے جو ابتدائی درجات میں خواندگی، صنفی مساوات، اور لڑکیوں کی تعلیم کے شعبوں میں کام کر رہی ہے۔
مصنفہ نے دی انڈپنڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ایک شاعرہ کی حیثیت سے میں فلسطین کے بچوں، خواتین اور متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہتی ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے دیکھا کہ روم ٹو ریڈ انڈیا ٹرسٹ بچوں کی تعلیم کے لیے بوئنگ کے ساتھ بھی منسلک ہے۔‘
گذشتہ سال اگست میں اس وقت کی انڈین وزیر برائے ترقی خواتین و اطفال اور اقلیتی امور، سمرتی ایرانی نے اتر پردیش کے ضلع امیٹھی میں بوئنگ کی شراکت کے ساتھ دو نئے منصوبوں کے آغاز کا اعلان کیا۔
بوئنگ انڈیا کے بیان کے مطابق، وہ روم ٹو ریڈ کے خواندگی پروگرام کی مالی معاونت کر رہا ہے جس کا مقصد چار سال میں 60 پرائمری سکولوں میں ’خود مختار قارئین کی مدد ہے۔‘
کہا جاتا ہے کہ بوئنگ اسرائیلی فوج کو ہتھیار فراہم کرنے والا اہم ادارہ ہے اور اس کا اسرائیل کے ساتھ طویل المدت تعلق ہے۔
کرکیتا کے بقول: ’جب فلسطین میں بچوں کو قتل کیا جا رہا تھا، روم ٹو ریڈ انڈیا ٹرسٹ بوئنگ کے ساتھ بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے تعاون کر رہا تھا اور بوئنگ کا اسرائیل کے ساتھ تعلق ہتھیاروں کے کاروبار سے جڑا ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب بچوں کی دنیا انہی ہتھیاروں سے تباہ کی جا رہی ہو تو ہتھیاروں کے کاروبار اور بچوں کی فلاح ایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ انہی خدشات کی وجہ سے میں نے یو ایس ایڈ کے حمایت یافتہ اس ایوارڈ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرکیتا نے یو ایس ایڈ اور روم ٹو ریڈ انڈیا ٹرسٹ دونوں کو خط لکھ کر ایوارڈ لینے سے انکار اور اس کے اسباب کی وضاحت کر دی ہے۔
گذشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مکمل حملے کے آغاز سے اب تک 16 ہزار سے زیادہ بچوں کی جان جا چکی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کے نائب صدر، براگی گڈبرینڈسن نے گذشتہ ماہ کہا کہ ’بچوں کی اموات کی یہ المناک صورت حال تاریخی طور پر تقریباً منفرد ہے۔ یہ تاریخ کا ایک انتہائی تاریک لمحہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہم نے اس سے پہلے اتنے وسیع پیمانے پر خلاف ورزی دیکھی ہو جتنی غزہ میں ہو رہی ہے۔ یہ انتہائی سنگین خلاف ورزیاں ہیں جو ہم اکثر نہیں دیکھتے۔‘
کرکیتا، جھاڑکھنڈ کی اراؤں آدیواسی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے سات دیگر کتابیں بھی تصنیف کی ہیں، جن میں ایشور اور بازار، جسنتہ کی ڈائری اور لینڈ آف دی روٹس شامل ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ آدیواسی (مقامی) مصنفہ نے اخلاقی وجوہات کی بنا پر کسی ایوارڈ کو ٹھکرا دیا ہو۔
اس سے قبل بھی انہوں نے منی پور کے شمال مشرقی صوبے میں آدیواسی جدوجہد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک اعزاز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
انہوں نے اس وقت نیوز لانڈری کو بتایا کہ ’یہ (ایوارڈ) ایسے وقت دیا جا رہا ہے جب منی پور کے قبائلیوں کی جان کا احترام ختم ہو رہا ہے۔
’وسطی انڈیا میں قبائلیوں کی جان کا احترام بھی ختم ہوتی جا رہا ہے اور عالمی معاشرے میں دوسری برادریوں کے افراد پر بھی مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ میرا ذہن مضطرب ہے اور میں اس اعتراف کے ساتھ کوئی جوش یا خوشی محسوس نہیں کر رہی۔‘
مئی 2023 سے منی پور میں اکثریتی میتی اور اقلیتی کوکی برادریوں کے درمیان تشدد جاری ہے جو معاشی مراعات اور کوٹے سے متعلق تنازعات کی وجہ سے شروع ہوا۔
ایشور اور بازار نامی کتاب کا انتساب دلت آدیواسی برادریوں کے نام ہے، خاص طور پر اوڈیشہ کے نیام گری علاقے کے قبائل کے لیے، جنہوں نے اپنے علاقے میں باکسائٹ کی کان کنی کے خلاف ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک مزاحمت کی۔
کرکیتا نے دی انڈپینڈنٹ سے بات چیت میں کہا کہ ’میں دیکھتی ہوں کہ انڈیا میں بہت سے لوگ فلسطین میں ہونے والی نسل کشی پر خاموش ہیں۔ جس طرح ملک میں اقلیتوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے، اسی طرح فلسطین کے لوگوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ایک شاعرہ اور ادیبہ ہونے کے ناتے، یہ بات مجھے بھی پریشان کرتی ہے۔‘
ان کے شعری مجموعے ’جرہل‘ میں بچوں میں سماجی اور سیاسی شعور بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ خیال آدیواسی ثقافت سے لیا گیا ہے۔ شعری مجموعہ رواں سال کے شروع میں جگنو پرکاشن نے شائع کیا، جو اِک تارا ٹرسٹ کی اشاعتی شاخ ہے جو بھوپال، مدھیہ پردیش میں واقع ہے۔
دی انڈیپنڈنٹ نے یو ایس ایڈ، بوئنگ، اور روم ٹو ریڈ انڈیا سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا۔
انٹرنیشنل ورک گروپ فار انڈیجنس افیئرز (آئی ڈبلیو جی آئی اے) کے مطابق انڈیا میں تقریباً 705 نسلی گروپ چھوٹے قبائل کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ وسطی انڈیا میں ان گروپوں کو عام طور پر آدیواسی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ’اصل باشندے‘ یا ’مقامی لوگ‘ ہے۔
تقریباً 10.4 کروڑ کی آبادی کے ساتھ، آدیواسی انڈیا کی کل آبادی کا تقریباً 8.6 فیصد حصہ بنتے ہیں۔
© The Independent