پاکستان کے قبائلی علاقے کرم کے اعلیٰ سرکاری عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ ہفتے کو مسافروں کے قافلے پر ہونے والے حملے میں جان سے جانے والوں کی تعداد 16 ہوگئی ہے جن میں 14 خواتین، بچے اور مرد اور دو حملہ آور شامل ہیں۔
پولیس کی جوابی فائرنگ سے دو حملہ آور مارے گئے۔
سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ ہفتے کو مسافروں کا ایک قافلہ نیم فوجی فورس کے اہلکاروں کی حفاظت میں سفر کر رہا تھا کہ اس پر حملہ کر دیا گیا۔
اس حملے کے ’نتیجے میں 14 لوگ جن میں تین خواتین اور دو بچے شامل ہیں جان سے گئے جبکہ چھ زخمی ہو گئے۔‘
سرکاری عہدے دار کا کہنا تھا کہ فرنٹیئر پولیس کی جوابی فائرنگ میں دو حملہ آور مارے گئے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں قبائل کئی ماہ سے وقفے وقفے سے لڑائی میں مصروف ہیں۔
کرم جو پہلے نیم خودمختار علاقہ تھا خونی تاریخ کا ملک ہے جہاں قبائل کے درمیان تصادم ہوتے رہے ہیں، جن میں برسوں میں سینکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
جولائی اور ستمبر میں ہونے والی تازہ قبائلی جھڑپوں میں درجنوں افراد کی جان گئی۔ یہ جھڑپیں اس وقت بند ہوئیں جب جرگہ نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اب حکام نئی جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان میں قبائلی اور خاندانی دشمنیاں عام ہیں، تاہم خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں یہ تنازعات خاص طور پر طویل اور پرتشدد ہو سکتے ہیں، جہاں برادریاں روایتی قبائلی عزت و وقار کے اصولوں کی پاسداری کرتی ہیں۔
تنازع کا آغاز ضلع کرم کی تحصیل اپر کرم کے گاؤں بوشہرہ اور احمد زئی کے درمیان چھ دن قبل ایک زمینی تنازع سے ہوا، جب دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر ان کی زمینوں میں مورچے بنانے کا الزام عائد کیا۔ اس الزام کے بعد دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال ہوا، جس کے نتیجے میں دونوں فریقین مورچہ زن ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لڑائی اب ضلع کرم کے دیگر علاقوں تک پھیل چکی ہے، اور بوشہرہ کے بعد لوئر کرم کے گاؤں بالش خیل اور خار کلے میں بھی جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔ ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید محسود کے مطابق فائر بندی کے لیے مقامی مشران کی مدد سے کوششیں جاری ہیں، جبکہ سکیورٹی اہلکاروں کو علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تعینات کر دیا گیا ہے۔
انجمن حسینیہ پاڑہ چنار کے سربراہ جلال حسین بنگش نے پریس کانفرنس میں اس تنازع کو ذاتی زمینی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اپیل کی کہ اس تنازع کو دیگر علاقوں تک نہ پھیلایا جائے، کیونکہ اس سے دونوں جانب جانی نقصان ہو رہا ہے۔
دوسری جانب، انجمن فاروقیہ کے صدر منیر بنگش نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 40 سال سے جاری یہ لڑائیاں صرف تباہی، بغض اور نفرت کا سبب بن رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض عناصر جان بوجھ کر لڑائی جاری رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے لیے جنگ میں فائدہ ہے اور وہ امن کے خواہاں نہیں۔
تقریباً دو ماہ قبل بھی اسی علاقے میں لڑائی شروع ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں 42 افراد ہلاک ہوئے تھے، لیکن اس وقت ایک جرگے کی مدد سے فائر بندی ہو گئی تھی۔ تاہم، اب دوبارہ صورتحال کشیدہ ہو چکی ہے اور تنازع مزید پھیلنے کا خدشہ ہے۔