الیکٹرک موٹر سائیکلیں بنا کر زرمبادلہ بچایا جائے: چیئرمین آپما

ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹر سائیکل اسیمبلرز (آپما) کے چیئرمین صابر شیخ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سنجیدگی سے اس پالیسی پر عمل کرے تو پاکستان میں متعدد ماحولیاتی، صحت کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے 2030 تک پاکستان کی سڑکوں پر 30 فیصد الیکٹرک گاڑیاں لانے کا ہدف طے کیا جبکہ ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹر سائیکل اسیمبلرز (آپما) نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔

چند روز قبل اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے کہا کہ نئی پانچ سالہ الیکٹرک وہیکل پالیسی 30-2025 کے مسودے کو تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

وفاقی وزیر کے مطابق حکومت ماحول دوست گاڑیوں کو فروغ دینے اور درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے پرعزم ہے اور الیکٹرک سکوٹرز اور موٹر سائیکلوں کے لیے چار ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔

’اس سکیم کے تحت الیکٹرک موٹر سائیکلوں کو فی کس 50 ہزار روپے جبکہ تین پہیوں والی گاڑیوں کو دو لاکھ روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔‘

ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹر سائیکل اسیمبلرز (آپما) کے چیئرمین محمد صابر شیخ نے وفاقی وزیر کی جانب سے برقی موٹر سائیکلوں کو فی کس 50 ہزار روپے جبکہ تین پہیوں والی گاڑیوں کو دو لاکھ روپے کی سبسڈی دینے کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں عام لوگوں کے پاس 70 سی سی موٹرسائیکل خرید کرنے کا بجٹ ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں الیکٹرک گاڑی یا موٹرسائیکل کی قیمت کئی گنا زیادہ ہے۔ اس لیے لوگ الیکٹرک گاڑیاں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔‘

صابر شیخ نے کہا ہے کہ اگر حکومت سنجیدگی سے اس پالیسی پر عمل کرے تو پاکستان میں متعدد ماحولیاتی، صحت کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد صابر شیخ نے کہا کہ پاکستان تیل کی درآمد کے لیے بہت بڑی رقم ادا کرتا ہے اور اس کے علاوہ روایتی گاڑیوں اور خاص طور پر موٹرسائیکلوں سے نکلنے والے دھویں سے دیگر ماحولیاتی مسائل کے ساتھ سموگ جیسا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد صابر شیخ کے مطابق: ’اگر حکومت نئی الیکٹرک وہیکل پالیسی پر عمل کرے تو پاکستان کے کئی سنگین مسائل حل ہوسکتے ہیں۔‘

محمد صابر شیخ کے مطابق: ’اگر حکومت الیکٹرک گاڑیوں، خاص طور پر موٹرسائیکل اور تین پہیوں والی گاڑیوں پر اعلان کردہ سبسڈی دے اور ان گاڑیوں کی خریداری کے لیے بغیر منافع قسطوں میں دی جائیں تو لوگ بڑے پیمانے پر الیکٹرک گاڑیاں اور موٹر سائیکل خریدیں گے۔‘

ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹر سائیکل اسیمبلرز (آپما) کے مطابق موٹر سائیکل بنانے والے ممالک بشمول چین میں عام طور پر موٹرسائیکل 60 کلوگرام تک وزن والے افراد کے لیے بنائی جاتی ہے۔ جب کہ پاکستان میں عام طور پر ہر شخص کا اوسط وزن 80 کلو سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں موٹرسائیکل کئی سال پرانی ہوتی ہے، جس پر زیادہ وزن ہونے کے باعث موٹرسائیکل سے انتہائی زہریلی گیس خارج ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت پاکستان میں تین کروڑ سے زائد موٹرسائیکل ہیں، جن کی اکثریت لاہور، کراچی، پشاور سمیت بڑے شہروں میں چلتی ہے۔ جہاں زہریلی گیس کے باعث اب سموگ عام ہوتا جارہا ہے۔ اگر الیکٹرک موٹرسائیکل تو سموگ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔‘

محمد صابر شیخ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نئی الیکٹرک پالیسی میں الیکٹرک موٹرسائیل کو مقامی طور پر بنانے کی اجازت دی جائے تو درآمدات پر بھاری رقم بچانے کے مقامی طور تیار ہونے والی موٹرسائیکل سستی ہو گی اور زیادہ لوگ الیکٹرک موٹرسائیکل خرید سکیں گے۔

 کراچی کی موٹرسائیکل بازار اکبر مارکیٹ میں الیکٹرک موٹرسائیکل کی خریداری کے لیےآنے والے مشتاق احمد خان ایک نجی سکول چلاتے ہیں اور سکول گھر سے دور ہونے اور کوچنگ کے سفر کے باعث انہیں روزانہ 50 سے 60 کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مشتاق احمد خان نے کہا کہ ’پیٹرول کی قمیت میں مسلسل اضافے کے بعد میں اب الیکٹرک موٹرسائیکل خرید رہا ہوں تاکہ اپنے روزانہ کے خرچے کو کم کر سکوں۔‘

رکشہ ڈرائیور عبدالمالک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت کی جانب سے الیکٹرک رکشہ پر دو لاکھ روپے کی سبسڈی دینے والی اچھی بات مگر رکشہ کمرشل سواری ہے اگر چارجنگ کے لیے دور جانا پڑا تو سورای نہیں اٹھاسکیں گے اور اس طرح مالی نقصان ہوگا۔

’اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہم الیکٹرک رکشے خریدیں تو ہر جگہ الیکٹرک چارجنگ لائی جائے، ورنہ لوگ الیکٹرک رکشہ نہیں خریدیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی