انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں مسلمان مظاہرین اور پولیس کے درمیان اتوار کو جھڑپوں میں کم از کم دو افراد جان سے گئے۔
یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب ایک سروے کے ذریعے جاننے کی کوشش کی گئی کہ آیا ایک 17ویں صدی کی مسجد کسی ہندو مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔
پولیس افسر پون کمار نے بتایا کہ ’دو افراد کی موت کی تصدیق ہوئی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ جھڑپوں کے دوران 16 پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا نیوز ایجنسی نے حکام کے حوالے سے بتایا کہ تین افراد کی موت ہوئی۔
ہندو گروپوں نے کئی مساجد پر دعویٰ کیا ہے کہ وہ صدیوں پہلے مسلم مغل سلطنت کے دور میں ہندو مندروں پر تعمیر کی گئیں۔
سڑکوں پر جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب ایک مقامی عدالت کے حکم پر سروے کرنے والی ٹیم نے سنبھل کی شاہی جامع مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
یہ حکم ایک ہندو پجاری کی درخواست پر دیا گیا جس نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مسجد ایک ہندو مندر کی جگہ پر بنائی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتوار کو مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس پر پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔
قبل ازیں رواں سال ہندو قوم پرستوں کو اس وقت مزید تقویت ملی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے شمالی شہر ایودھیہ میں بہت بڑے نئے ہندو مندر کا افتتاح کیا۔
یہ مندر اس زمین پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں کبھی صدیوں پرانی بابری مسجد ہوا کرتی تھی۔
یہ مسجد 1992 میں مودی کی جماعت کے ارکان کی قیادت میں ایک مہم کے دوران منہدم کر دی گئی جس کے نتیجے میں فسادات پھوٹ پڑے، جن میں ملک بھر میں دو ہزار لوگوں کی جان گئی جن میں زیادہ تر مسلمان
تھے۔
مہم چلانے والے بعض ہندو مودی کو اپنا نظریاتی سرپرست سمجھتے ہیں۔
2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انڈیا کے سرکاری طور پر سیکولر سیاسی نظام کو اکثریتی ہندو عقیدے کے قریب لانے کی آوازیں تیزی سے بلند ہو رہی ہیں جس سے ملک کی تقریباً 21 کروڑ کی مسلمان
اقلیت اپنے مستقبل کے بارے میں مزید پریشان ہو گئی ہے۔