اب پاکستان ڈو مور کہے گا؟

ایک مرتبہ پھر پاکستان ہی کا طالبان اور امریکہ کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے میں اہم کردار ہو گا۔ اس دورہ سے قوی امید ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان دوبارہ سے مذاکرات شروع ہو نے کے امکانات ہیں۔

افغان طالبان کا یہ دورہ وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیویارک میں ملاقات کا فالو اپ ہے(اے ایف پی/ پاکستان وزارت خارجہ)

افغان طالبان کا بارہ رکنی سیاسی وفد ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں اپنی سفارت کاری کے جوہر دکھانے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہے۔ دوحہ سے طالبان کا وفد ایسے موقعے پر پاکستان آیا ہے جب افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد بھی یہاں پہلے سے موجود ہیں۔

زلمے خلیل زاد کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ افغانستان کے لیے امن معاہدے کو حتمی شکل دیں۔ اسی لیے وہ کبھی دوحہ، کابل اور کبھی اسلام آباد میں پائے جاتے ہیں۔ اب بھی یہ کوئی اتفاق نہیں کہ خلیل زاد اسلام آباد ہیں تو طالبان بھی اچانک پہنچ گئے۔ انہیں حسین اتفاق نہیں، بلکہ پس پردہ سفارت کاری کہا جاتا ہے۔

افغان طالبان کا یہ دورہ وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیویارک میں ملاقات کا فالو اپ ہے۔ یہ الگ بات کہ طالبان کا کہنا ہے کہ یہ طے شدہ دورہ ایران، روس اور چین کے بعد لازم تھا۔ 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سات ستمبر کو محض ایک ٹویٹ کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل کر دیے تھے۔ ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد، طالبان اور پاکستان کی 11 ماہ کی جستجو پر پانی ڈال دیا تھا۔ یہ کام انہوں نے ایک ایسے وقت کیا جب طالبان کے ساتھ امن معاہدے کا اعلان محض ایک روز بعد تاریخی مقام کیمپ ڈیوڈ میں کیا جانا تھا۔

طالبان نے بھی اس کے بعد افغانستان میں حملے بڑھاتے ہوئے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تباہی و بربادی عام کر دی۔ طالبان کا اصرار تھا کہ 28 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات امن معاہدے کے بعد کیے جائیں لیکن امریکہ اور صدر اشرف غنی انتخابات تیسری مرتبہ منسوخ کرنے کے حق میں نہ تھے۔

نئے صدر کے لیے ووٹنگ تو مقررہ تاریخ 28 ستمبر کو ہو چکی لیکن اس دوران ووٹر ٹرن آؤٹ افغانستان کی تاریخ کا سب سے کم یعنی 20 فیصد رہا۔ 96 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹروں میں سے صرف 22 لاکھ نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ موجودہ صدر اشرف غنی کامیابی کا دعویٰ ضرور کر رہے ہیں لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ افغانستان کی سب سے کمزور حکومت ہو گی۔

واپس طالبان مذاکرات پر آتے ہیں۔ امن معاہدہ کو حتمی شکل دینے کے بعد امریکہ کی جانب سے پیچھے ہٹنے کو طالبان نے پسند نہ کیا۔ انہوں نے پھر نہ صرف افغانستان میں حملے بڑھائے بلکہ ساتھ ساتھ سفارت کاری بھی تیز کی۔ روس، ایران اور چین پر اپنا موقف واضح کرنے بعد طالبان کا بھاری بھرکم وفد پاکستان آیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دورے کی اہم بات یہ ہے کہ زلمے خلیل زاد پہلے سے یہاں موجود ہیں۔ پہلے کیے گئے ان تینوں ممالک کے دورے میں امریکی مندوب موجود نہیں تھے۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ اگر زلمے خلیل زاد ہم سے ملنا پسند کریں گے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا، ہمارے دروازے کھلے ہیں۔

طالبان کا یہ دورہ تین ملکوں کے دورہ سے مختلف اور مدد گار ثابت ہو گا۔ وزیر اعظم بھی سعودی عرب اور امریکہ سے انتہائی اہم دس روزہ سفارت کاری کر کے لوٹے ہیں۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے سب سے زیادہ کوشاں رہا ہے۔ پاکستان ہی کی وجہ سے طالبان اور امریکہ کے براہ راست مذاکرات یقینی ہو سکے ہیں۔

ایک مرتبہ پھر پاکستان ہی کا طالبان اور امریکہ کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے میں اہم کردار ہو گا۔ اس دورہ سے قوی امید ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان دوبارہ سے مذاکرات شروع ہو نے کے امکانات ہیں۔ امریکہ کی شدت سے خواہش ہے کہ وہ 18 سال سے جاری افغان جنگ سے جان چھڑائے۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک سال بعد ہونے والے امریکی انتخابات سے پہلے پہلے افغانستان میں جنگ بندی اور فوجیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔

افغان صدر کی یہ بھی خواہش ہے کہ طالبان افغان حکومت کو بھی امن عمل میں شامل کریں اور جنگ بندی کا اعلان کریں۔ دوسری طرف طالبان آمادہ ہو چکے ہیں کہ افغان حکومت کے ساتھ بطور افغان سیاسی دھڑے کے بین الافغانی مذاکرات میں بات ہو سکتی ہے۔

پاکستان کی خواہش ہے کہ کسی طرح امن عمل دوبارہ شروع ہو سکے۔ اب پاکستان پر ہے کہ وہ کس طرح اس صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔ کیا پاکستان اس ڈیل کی سہولت کاری کے بدلے ڈو مور کا مطالبہ کر سکے گا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر