’ہم آپ کے خلاف نہیں ہیں، آپ ہمارے بھائی ہیں‘

عراق میں ایک سال پہلے قائم ہونے والی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کی حکومت کے لیے مظاہرے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ جب موسم گرما اپنے عروج پر تھا، تب حکومت مسائل کا شکار نہیں ہوئی۔

جب مظاہرین نے گرین زون کی طرف مارچ کیا تو ان پر گرم پانی پھینکا گیا، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں استعمال کی گئیں۔ اس موقعے پر فائرنگ بھی کی گئی۔(اے ایف پی)

عراق کے دارالحکومت بغداد کے وسطی علاقے میں تحریرسکوائر کی طرف جانے والی سڑک کے فٹ پاتھ پر ایک شخص مردہ یا زخمی حالت میں پڑا ہے۔

فوجی اور پولیس اہلکار اس کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں جبکہ سکوائر کی دوسری جانب عراقی فوجی سو کے قریب مظاہرین کے ایک گروپ کو کونے تک محدود کر رہے ہیں۔ عراقی پرچم ہاتھوں میں اٹھائے بعض مظاہرین’پرامن‘ اور ’برائے عراق‘کے نعرے لگا رہے ہیں۔

ان مظاہرین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو آغاز میں دکھائی دی کیونکہ وہ گروپوں میں تقسیم ہو کر مسلسل ایک سے دوسرے مقام پر منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ خود کار اسلحے سے فائرنگ کی زوردار آواز سنائی دیتی رہتی ہے۔ خیال ہے کہ  تمام گولیاں ہوا میں چلائی جاتی ہیں۔

ایک سڑک پر جلتے ہوئے ٹائروں سے سیاہ دھواں اٹھ رہا ہے اور دوسری سڑکیں پولیس نے اپنی سبز اور پیلے رنگ کی کاروں میں سوار کر بند کر رکھی ہیں۔ پولیس کے ساتھ یونیفارم پہنے فوجی اور سیاہ رنگ کی وردی والے انسداد دہشت گردی سروس کے اہلکار بھی موجود ہیں۔ رات کے وقت حالات خراب ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک واقف حال کہتے ہیں’بغداد میں کم از کم 10 علاقے ایسے ہیں جنہیں لوگوں نے رکاوٹیں کھڑی کر کے اور ٹائر جلا کے بند کر رکھا ہے۔‘ نوجوانوں کی ٹولیاں موٹرویز کو بھی بند کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ حکام انہیں اپنے کنٹرول میں رکھنے میں رکھنے میں مصروف ہیں۔

رواں ہفتے کے شروع میں بدعنوانی اور بے روزگاری کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شریک ہونے افراد کی تعداد کم تھی۔ اگر اس وقت عراقی حکومت نے بدعنوانی اور ملازمتوں کی قلت کے خلاف مظاہروں کو کسی بڑی تحریک میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہوتی تو اس صورت میں حکومت اپنا کام بہت اچھے طریقے سے کر رہی ہوتی۔

زیادہ تر حکومتی دفاتر گرین زون میں واقع ہیں۔ منگل کی رات جب مظاہرین نے گرین زون کی طرف مارچ کیا تو ان پر گرم پانی پھینکا گیا، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں استعمال کی گئیں۔ اس موقعے پر فائرنگ بھی کی گئی۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ صرف دو افراد مارے گئے اورمتعدد زخمی ہوئے۔ اگرچہ ہسپتال کے ڈاکٹر، جنہوں نے زخمیوں کا علاج کیا، ان کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

حیدر کہتے ہیں ’سیکیورٹی سروسز کے سخت رویے پر ہمیں حیرت ہوئی ہے۔‘ حیدر نے وکیل کی حیثیت سے مہارت حاصل کر رکھی ہے۔ انہوں نے بے روزگاری کے خلاف مظاہروں کے اہتمام میں مدد کی۔ انہوں نے گریجویٹ نوجوانوں کی بھی احتجاج میں مدد کی۔ ان گریجویٹس میں تین لاکھ سات ہزارگذشتہ تین ماہ سے  بے روزگار ہیں۔

منگل کو جب تک فوج اور پولیس نے مظاہرین پر سخت کے ساتھ دھاوا نہیں بولا تھا ان کی جانب زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی تھی۔ سیکیورٹی فورسز کا مؤقف ہے کہ انہیں گرین زون کے ہر قیمت پر تحفظ کا حکم تھا۔

حیدر کا کہنا ہے کہ کمیٹیاں اور غیرسرکاری تنظیمیں جو مظاہروں کا اہتمام کر رہی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ جمعہ چار اکتوبر کو بڑا مظاہرہ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ منگل کو شام سات بجے غیرسرکاری تنظیموں نے مظاہرہ ملتوی کرنے کی کوشش کی کیوں کہ یہ ان کے قابو سے باہر ہو رہا تھا اور ایک ترک ریستوران کو نذرآتش کر دیا گیا تھا۔

حکومت کی جانب سے ضرورت سے زیادہ ردعمل کا مظاہرہ جاری ہے۔ بدھ کو ہتھیاروں سے لیس فوجی جنہوں نے چہرے پر سیاہ رنگ کے ماسک چڑھا رکھے تھے تحریر سکوائر کے قریب دندناتے رہے۔ وہ یہ تاثر دے رہے تھے کہ جیسے کسی غیرملکی فوج کے حملے کو ناکام بنا رہے ہوں۔ سادون سٹریٹ پر واقع فضائی کمپنیوں کے تمام دفاتر بند ہو چکے ہیں۔ الندال سٹریٹ پر واقع کلینکس کا بھی یہی حال ہے۔

بغداد کے معیار کے مطابق سڑکوں پربہت ٹریفک بہت کم ہے جبکہ پیدل چلنے والے بھی زیادہ تعداد میں دکھائی نہیں دیتے۔ بلدیاتی اداروں کے کارکنوں نے رات کے وقت تحریر سکوائر کو صاف کر دیا۔ انہوں نے صفائی کے لیے پانی استعمال کیا جبکہ گاڑیوں نے کچرا اٹھایا۔ اس دوران ایک کار نے مظاہرین اور فوجیوں دونوں کو پانی فراہم کیا۔

مظاہرے میں شامل ایک نوجوان نے فوجی کو ٹھنڈے پانی کی بوتل دیتے ہوئے کہا ’ہم آپ کے خلاف نہیں ہیں۔ آپ ہمارے بھائی ہیں۔‘

بغداد کے شمال میں زعفرانیہ کے علاقے میں کم از کم پانچ افراد کا علاج کیا گیا۔ انہیں سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی کیونکہ پولیس نے ایک چھوٹے مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی تھی۔ شمالی بغداد کے علاقے الشعاب میں بھی پولیس نے آنسو گیس استعمال کی۔ سیکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ الشعاب میں پانچ اور زعفرانیہ میں تین افراد کو گرفتار کیا گیا۔

عراق میں ایک سال پہلے قائم ہونے والی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کی حکومت کے لیے مظاہرے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ جب موسم گرم میں گرمی اپنے عروج پر تھی حکومت مسائل کا شکار نہیں ہوئی۔

یہ وہ وقت ہے جب ائرکنڈیشنروں کے استعمال کے لیے بجلی کی قلت شدید عوامی غصے کا سبب بن جاتی ہے لیکن اس موقعے پر ایسے بڑے مظاہرے نہیں ہوئے جس طرح کے مظاہروں نے 2018 میں بصرہ شہر کو مفلوج کر دیا تھا اور نتیجہ سابق وزیراعظم کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکلا۔

مظاہروں اورشہریوں کے مارچ میں شدت نہیں آئی تھی اور ان کی قیادت کرنے والے چاہتے تھے کہ انہیں کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ سمجھا جائے۔ قوم پرست عوامی مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کے پیروکاروں سے کہا گیا کہ وہ مظاہروں میں حصہ نہ لیں۔ رابطے کے لیے سوشل میڈیا کا استعال کرتے ہوئے لوگوں نے بدعنوانی اور بنیادی سہولتوں کی کمی کے خلاف مظاہرے کیے جن میں شامل یونیورسٹیوں کے طلبا نے خاص طور پر شکایت کی ان کی تعلیمی قابلیت نے انہیں ملازمت دلوانے میں کوئی مدد نہیں کی۔

عراق کے دوسرے صوبوں میں بھی ایسے ہی مظاہرے ہوئے جن میں جنوب میں بصرہ اور ناصریہ شامل ہیں۔ ہسپتال حکام کے مطابق ناصریہ میں مظاہرے میں شریک ایک شخص مارا گیا جبکہ 20 دوسرے زخمی ہوئے۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ ان صوبوں میں احتجاج کرنے والے تمام افراد شیعہ ہیں۔ یہ حقیقت ایسے ملک میں اہمیت کی حامل ہے جہاں اہل تشیع کی اکثریت ہے جبکہ حکومت میں بھی زیادہ تر وہی ہیں۔

مسئلہ ہے کہ حکومت ہر سطح پر بدعنوان ہے۔ حکومت اور وزارتوں کی ملازمت ملنے کا انحصار پارٹی اور مذہبی وابستگی پر ہے۔ 2003 میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد نیا نظام حکومت متعارف کرایا گیا اور اس وقت سے یہ نظام جمود کا شکار ہے اور اس کی اصلاح تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا