داعش کی شکست کے بعد بھی غمزدہ عراقی ایک منقسم ملک کی داستان سناتے ہیں

اگر عراق کو متحد رہنا ہے تو شیعہ سنی کے فرق کے بغیر داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والوں کو وہ احترام دیا جائے جس کے وہ حق دار ہیں۔ لیکن یہاں سیاست کو قومی یادداشتوں پر فوقیت حاصل ہے اور یہ ملک ہیروز کے قابل نہیں ہے۔

داعش کے خلاف لڑنے والے طامی وہاب محمد الیاسری اپنے گھر میں۔ تصویر: ماہرسلطان

یہ ایک 54 سالہ شخص کی داستان ہے جس نے اپنی جان کی بازی لگاتے ہوئے محاصرے کے دوران عراق کی قومی فوج کو داعش کے جنگجووں سے بچایا تھا۔

جنوبی عراق کے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے طامی وہاب محمد الیاسری داعش کے خلاف میدانِ جنگ سے ایک ہیرو کی مانند لوٹے تھے لیکن ان کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے۔

میں نے ان کی گہری سیاہ بھنوں کے نیچے سے جھانکتی آنکھوں میں تشویش دیکھی۔

جب میں نے طامی سے پوچھا کہ وہ کیسے زخمی ہوئے تھے تو وہ خالی دیوار کی جانب تکنے لگے۔ تھوڑی دیر میں وہ گویا ہوئے: ’میں کئی بار زخمی ہوا ہوں۔‘

زخمی ہونے کی واقعات تو جیسے ان کے ذہن میں ایک ڈائری کی طرح نقش ہیں۔

’28 اپریل 2015 بیجی میں، تین جولائی 2015 پھر بیجی میں۔ پانچ مئی 2016 کو تکریت کے قریب  ایک پہاڑی پر اور پھر تین جولائی 2017 کو الانبار صوبے کے خالدیہ شہر میں زخمی ہوا تھا۔‘

وہ آخری زخم تھا جس کے بعد طامی کی ہمت جواب دے گئی۔

’میں علی اکبر بریگیڈ (شیعہ ملیشیا) کی ایک کمپنی کی قیادت کر رہا تھا جب داعش کے ایک سنائپر نے میرے سر کا نشانہ لیا اور گولی میرے سر کے پچھلے حصے میں آ لگی۔‘

 طامی نے اپنے سر کے پیچھے ہاتھ رکھتے ہوئے بتایا: ’میری کھوپڑی کا ایک حصہ غائب ہو گیا تھا۔ الفاظ ڈھونڈنا اب میرے لیے بہت مشکل ہے۔ میری یادداشت پر بھی گہرا اثر پڑا ہے، مگر مجھے کسی چیز کا افسوس نہیں ہے، میں نے اپنے رہنما آیت اللہ علی السیستانی کے فتوے پر عمل کیا۔‘

اپنی پتلون کے پائنچے اوپر کرتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنی ٹانگوں پر زخموں کے نشان دکھائے۔ ایک ٹانگ پر ہولناک نشان ہے جیسے کسی نے آری سے چیرا ہو۔

طامی (جو اب بھی فوجی یونیفارم میں ملبوس رہتے ہیں) نے مجھے کربلا شہر کے نزدیک اپنی رہائش گاہ میں آویزاں جنگی معرکوں کے دوران لی گئیں تصاویر بھی دکھائیں۔ ایک تصویر میں وہ راکٹ چلا رہے ہیں۔ وہ اس منظر کی ایک ویڈیو بھی دیکھتے رہے۔ طامی اپنے ہی بنائے ایک جنگی میوزیم میں رہتے ہیں۔

خالدیہ میں سر پر گولی  لگنے کے بارے میں انہوں نے بتایا: ’مجھے لگا میں مر چکا ہوں۔ میرے ساتھی بھی ایسا ہی سمجھے، یہاں تک کہ انہوں نے میرے بھائی کو فون پر اطلاع دے دی کہ میں ’شہید‘ ہو چکا ہوں۔‘

’انہوں نے مجھے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا لیکن دو گھنٹے بعد کسی نے میری نبض دیکھی تو انہیں اندازہ ہوا کہ میں ابھی تک زندہ تھا جس کے بعد مجھے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بغداد کے الکاظمیہ ہسپتال منتقل کیا گیا۔ وہاں سے مجھے آپریشن کے لیے کربلا  کے ہسپتال لایا گیا۔ ڈاکٹرز نے مجھ سے شرائط نامے پر دستخط  کروائے کیونکہ آپریشن کی کامیابی کی صرف ایک فیصد امید تھی۔ میرے دماغ کے پیچھے کی ہڈی کو نکال کر ٹائٹینیم دھات کی تہہ لگانے کی ضرورت تھی۔ میں نے دستخط کر دیے۔‘

حیرانی کی بات ہے کہ صحتیابی کے بعد انہوں نے دوبارہ میدانِ جنگ میں جانے کی خواہش ظاہر کی جب تک کہ جنگ چھوڑنے کے لیے ایک اور فتویٰ جاری نہ ہو۔ انہوں نے کہا: ’میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہنا چاہتا تھا چاہے مجھے باتھ روم ہی صاف کرنے پڑتے۔‘

مگر جنگ میں واپس جانے کی ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ ان کو ان کے چھوٹے سے گھر واپس لایا گیا۔ شیعہ تنظیم ’روضہ مقدس امام حسین‘ نے ان کی مالی معاونت کی جبکہ عراقی حکومت کی جانب سے بھی ان کے لیے کچھ وظیفہ مقرر کیا گیا۔

ہماری گفتگو کے دوران طامی اچانک سے اٹھ کر چھوٹے سے کمرے میں ہی کسی سپاہی کی طرح مارچ کرنے لگے۔ ان کے رشتہ دار نے کہا: ’یہ بدلتے نہیں ہیں۔‘

داعش کے بارے میں طامی کا ماننا ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔

’داعش کے ارکان کو ذہنی طور پر غلام بنایا گیا ہے، وہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ ان میں سعودی، چیچن، ترک اور یقیناً عراقی بھی شامل تھے۔ ان کے نام نہاد اسلامی عقائد اسلام کے مخالف ہیں۔ ان کے عقائد پیغمبرِ اسلام سے پہلے ’دور جاہلیت‘ کے وقت کے ہیں اور وہ ہمیں واپس اسی زمانہِ جاہلیت کی جانب دھکیلنا چاہتے تھے۔‘

میں نے طامی سے حکومتی رویے کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا جواب حوصلہ افزا نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو شیعہ ملیشیا کے ان جنگجوؤں کی بھی زیادہ پرواہ نہیں ہے جنہوں نے بغداد میں عراقی فوج کو داعش کے محاصرے سے نکالنے میں مدد کی تھی۔

شیعہ ملیشیا کے کئی افراد شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت نے ان کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔ ان کے مطابق داعش کے خلاف لڑائی میں ’شہید‘ ہونے والے جنگجوؤں کے خاندانوں کو حکومت نے دریاؤں سے دور زمین کا ایک ایک ٹکرا دیا ہے جہاں تنکا تک نہیں اُگایا جا سکتا۔

دنیا کی تمام افواج فتح حاصل کرنے کے بعد توقع رکھتی ہیں کہ ان کے ساتھ ہیرو کے جیسا برتاؤ کیا جائے۔ برطانیہ کے پہلی جنگ عظیم سے واپس آنے والے سپاہیوں سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہ کرنے سے بڑے پیمانے پر ادھم مچا تھا۔ جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کے خاندان امید رکھتے ہیں کہ ان کے مرنے والے پیاروں کو ہمیشہ عزت ملے۔

ایک اور عراقی عباس سعدی نے اپنے 23 سالہ بیٹے ماہر کو سات جولائی 2015 کو بیجی کی اسی لڑائی میں کھو دیا جس میں طامی الیاسری کچھ دن پہلے ہی دوسری بار زخمی ہوئے تھے۔

عباس سعدی کا کہنا ہے کہ ان کے  بیٹے نے مرنے سے 15 منٹ پہلے ان سے بات کی تھی۔ ’ہم نے فون پر ڈھیروں باتیں کیں۔ میں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ میں اسے بہت یاد کرتا ہوں۔ وہ لڑائی میں شمولیت سے قبل مقامی ریستوران میں ویٹر تھا، ہر بار جب وہ چھٹی پر گھر آتا تو وہ یہی کہتا رہتا تھا کہ اسے افسوس ہے کہ وہ میدان جنگ میں ’شہید‘ نہیں ہوا۔‘

اگر آپ شیعہ تاریخ میں امام علی اور امام حسین اور پھر امام علی کے بیٹے حضر ت عباس کی آٹھویں صدی میں نجف اور  میدان کربلا میں شہادتوں سے ناواقف ہیں تو آپ کے لیے عباس سعدی کی ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ آخر کون سا سپاہی پہلی جنگ سے چھٹی پر اپنی موت کی خواہش لیے آتا تھا۔ مگر عراق میں جنگجو اپنی مرضی سے میدان جنگ میں واپس جاتے رہے اور چاہے ہم اس کو نہ مانیں مگر ان کی قبریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ انہوں نے ’اپنی جان دی ہے۔‘

میں نے کچھ ہچکچاہٹ سے عباس سے ماہر کی موت کے بارے میں پوچھا۔

انہوں نے کہا: ’ہمیں اپنے بیٹے کی موت کا افسوس نہیں ہے کیونکہ وہ ایک مقدس لڑائی لڑ رہا تھا جس کا فتویٰ دیا گیا تھا، یہ لڑائی سب عراقیوں پر فرض ہو چکی تھی۔‘

’جنگ کے دوران لڑائی کی شدت میں کمی آئی تو وہ کھانا لینے گیا اور ایک تربوز لا رہا تھا جب داعش کے سنائپر نے ماہر کے سینے کو نشانہ بنایا، دس منٹ بعد اس کی موت واقع ہو گئی۔‘

عباس سعدی بھی حکومتی رویے سے نالاں نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ غربت کا شکار ہیں، ان کا جوان بیٹا جنگ میں مارا گیا لیکن حکومت نے ان کی مالی مدد کے لیے کچھ زیادہ نہیں کیا۔

’حکومت نے ہمیں زمین دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن زمین کا جو ٹکرا ہمیں دیا گیا وہ صحرا میں ہے جہا ں ریت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ مقدس روضہ کے رضاکار ہماری مدد کرتے ہیں لیکن جب ہم بغداد کے حکومتی ایوانوں اور سرکاری دفتروں میں فریاد لے کے جاتے ہیں تو وہ ہمیں واپس جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔‘

اگر عراق کو متحد رہنا ہے تو شیعہ سنی کے فرق کے بغیر داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والوں کو وہ احترام دیا جائے جس کے وہ حق دار ہیں۔ لیکن یہاں سیاست کو قومی یادداشتوں پر فوقیت حاصل ہے اور یہ ملک ہیروز کے قابل نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر