اسرائیل نے بین الاقوامی دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے بدھ کے روز بھی غزہ کی پٹی پر فضائی حملے جاری رکھے۔
ان حملوں میں درجنوں فلسطینی جاں بحق ہوئے، جن میں کئی خواتین اور ایک ہفتے کا بچہ بھی شامل تھا۔ صرف گذشتہ ہفتے میں اسرائیل نے جب سے ’جدعون کی رتھیں‘ کے نام سے نئے آپریشن کا آغاز کیا ہے، کم از کم 500 افراد قتل کیے جا چکے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے دوران اسرائیلی فوج نے شدید فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ نئے زمینی حملے بھی شروع کیے، جبکہ عالمی برادری وزیر اعظم نتن یاہو کی حکومت سے مطالبہ کرتی رہی کہ فلسطینی آبادی اور امدادی کارکنوں کے لیے کچھ وقفہ دیا جائے۔
منگل کے روز اسرائیل نے 11 ہفتوں کی ناکہ بندی کے بعد غزہ میں انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں کو داخل ہونے کی اجازت دی، مگر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ امداد اب تک ان فلسطینیوں تک نہیں پہنچی جو انتہائی ضرورت مند ہیں۔
نتن یاہو نے برطانیہ اور دیگر مغربی اتحادیوں کی طرف سے بڑھتے دباؤ کو بھی مسترد کر دیا۔ برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا اور خبردار کیا کہ اگر یہ نیا حملہ نہ روکا گیا تو مزید سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
دوحہ میں جنگ بندی مذاکرات کے دوسرے دن کے اختتام پر، اسرائیل نے آپریشن جدعون کی رتھیں کے نام سے ایک بڑا زمینی حملہ شروع کیا، جس سے قبل غزہ پر شدید فضائی حملے کیے گئے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ حماس پر ’زبردست دباؤ‘ ڈالنا اور غزہ کی پٹی میں ’عملی کنٹرول‘ کو وسعت دینا چاہتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بن یامین نتن یاہو نے پیر کے روز سوشل میڈیا پر اپنے خطاب میں کہا، ’ہم شدید اور بھرپور جنگ میں مصروف ہیں اور پیش رفت ہو رہی ہے۔ ہم پٹی کے تمام علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے جا رہے ہیں، یہی ہمارا ارادہ ہے۔‘
تاہم اسرائیل کا یہ حملہ ہفتے سے پہلے ہی تیز ہو چکا تھا۔ جمعے کے روز اسرائیل نے شمالی غزہ پر زمین، سمندر اور فضا سے بڑا حملہ کیا، جس میں مقامی صحت حکام کے مطابق کم از کم 100 افراد جان سے گئے۔ یہ مارچ میں دو ماہ کی نازک جنگ بندی کے اختتام کے بعد یہ سب سے بڑا زمینی حملہ تھا۔
اسرائیل غزہ کی پٹی میں کیا کر رہا ہے؟
غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے نئے حملے میں 500 سے زائد فلسطینی قتل ہو چکے ہیں، جبکہ نتن یاہو نے عہد کیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کے ’تمام علاقوں‘ پر قبضہ کر لے گی۔ اتوار کی رات تک اسرائیلی افواج غزہ کی پٹی اور خان یونس کے بڑے شہروں کے قریب پہنچ چکی تھیں، لیکن ابھی تک مرکز تک نہیں پہنچی تھیں۔
اتوار کو اسرائیل نے اعلان کیا کہ اس کی افواج نے پانچ ڈویژنوں کے ساتھ، یعنی دسیوں ہزار فوجیوں پر مشتمل، غزہ بھر میں ’وسیع زمینی کارروائیاں‘ شروع کر دی ہیں۔
اسرائیلی افواج نے جنوب سے بھی حملہ کیا، جہاں لندن یونیورسٹی کے گولڈ سمتھ کالج کے تحقیقی ادارے ’فورینزک آرکیٹیکچر‘ کے محققین کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں دوسری عسکری ’راہداری‘ بنا رہا ہے تاکہ پٹی پر اپنا کنٹرول بڑھایا جا سکے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق اتوار کی شام تک فوجی غزہ شہر اور خان یونس جیسے بڑے شہروں کے مرکز تک نہیں پہنچے تھے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے اس حملے کی تفصیلات محدود طور پر ہی جاری کی گئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے دوران غزہ شہر، خان یونس، بیت لاحیہ اور رفح سمیت کئی علاقوں میں انخلا کے احکامات جاری کیے گئے، جس سے ہزاروں فلسطینی ایک بار پھر بےگھر ہو گئے۔
پیر کو اسرائیلی فوج نے خان یونس کے رہائشیوں کو ساحل کی طرف منتقل ہونے کا حکم دیا، کیونکہ فوج ایک ’بےمثال حملے‘ کی تیاری کر رہی تھی اور شہر کا محاصرہ کر چکی تھی۔
اس نئے حملے کے آغاز کے بعد سے اب تک اسرائیلی فضائی حملوں میں سینکڑوں فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں، جن میں صرف بدھ کے روز کم از کم 82 افراد جان سے گئے۔
ہسپتال کے عملے اور امدادی اداروں نے اس ہفتے بتایا کہ اسرائیلی افواج نے شمالی غزہ کے دو آخری فعال ہسپتالوں کو بھی گھیرے میں لے لیا ہے، جس سے عملے اور مریضوں کا آنا جانا ناممکن ہو گیا ہے۔ بدھ کے روز عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا کہ ہسپتال تباہی کے دہانے پر ہیں۔
اتوار کو غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ 18 مارچ سے اسرائیلی حملے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 3,193 افراد قتل کیے جا چکے ہیں، جس کے بعد دی نیو عرب کے مطابق مجموعی اموات 53,000 سے تجاوز کر چکی ہیں۔
© The Independent