گلگت بلتستان حکومت نے ہفتے کو سات دن سے لاپتہ گجرات سے تعلق رکھنے والے چار سیاحوں کی گاڑی کھائی میں گرنے سے موت کی تصدیق کردی ہے۔
گلگت بلتستان کی سیر کو جانے والے یہ نوجوان 16 مئی کے بعد سے لاپتہ تھے۔ ریسکیو 1122 سکردو کے مطابق نوجوانوں کی گاڑی آج (24 مئی) کو تباہ حال صورت میں سکردو روڈ کے قریب استک نالے کے قریب کھائی میں گری ہوئی ملی۔
ترجمان گلگت بلتستان حکومت ایمان شاہ کے مطابق حادثے میں ’چاروں نوجوان زندگی کی بازی ہار گئے۔‘
سیاح کون ہیں؟
نوجوانوں میں سے دو کے رشتہ دار عثمان وڑائچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سلمان نصراللہ اٹلی سے چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے ہوئے تھے اور انہوں نے تین دوستوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کا پروگرام بنایا۔
عثمان وڑائچ نے بتایا کہ عمر، سلمان اور واصف شہزاد آپس میں رشتہ دار ہیں اور عثمان ڈار ان کے دوست ہیں۔
’عمر اور عثمان ڈار تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جب کہ واصف کی شادی ہو چکی ہے اور وہ دو بچوں کے والد ہیں۔‘
عثمان وڑائچ کے مطابق: ’انہوں نے گھر والوں سے آخری رابطہ 16 مئی کو کیا تھا اور سکردو جانے کا بتایا۔ اس کے بعد سے ان کے موبائل فونز بند تھے۔‘
پولیس کا مؤقف
گلگت پولیس کے مطابق چاروں سیاحوں نے 15 مئی کو گلگت کے علاقے دنیور کے ایک مقامی ہوٹل میں رات گزاری تھی۔
گلگت پولیس کے ایک بیان کے مطابق 16 مئی کے بعد سے چاروں سیاحوں کے موبائل نمبر بند تھے جبکہ دنیور اور سکردو میں دمبوداس علاقوں کے درمیان رہنے والے مقامی افراد سے سیاحوں کو تلاش کرنے میں مدد کی اپیل بھی کی گئی۔
بیان کے مطابق: ’دنیور میں رات گزارنے کے بعد سیاح اگلے روز سکردو کے لیے نکل گئے تھے لیکن دمبوداس چیک پوسٹ سے معلومات حاصل کرنے کے بعد پتہ چلا کہ سیاحوں کی گاڑی نے اس چیک پوسٹ کو کراس نہیں کیا۔‘
جگلوٹ سکردو روڈ پر گانجی پڑی کا علاقہ ہے، جو گلگت اور ضلع سکردو کا جنکشن ہے، جہاں سے سکردو کی طرف سڑک مڑ جاتی ہے۔
جگلوٹ پولیس کے ترجمان ذبیح اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیاحوں کے رشتہ دار گلگت میں موجود اور پولیس سے رابطے میں رہے۔
انہوں نے بتایا کہ رشتہ داروں کی جانب سے سیاحوں کی آخری موبائل لوکیشن جگلوٹ ٹاور بتائی گئی، تاہم جگلوٹ ٹاور سے سکردو کی جانب سڑک نکلتی ہے اور وہاں بھی اسی ٹاور کے سگنلز کچھ علاقے تک کام کرتے ہیں۔
ذبیح اللہ کے مطابق: ’گلگت سکردو روڈ پر آگے جا کر ہراموش کے علاقے میں سگنلز ڈراپ ہوجاتے ہیں اور وہاں پر ’ایس کام‘ کام کرتا ہے، جب کہ باقی نیٹ ورکس کے سگنلز ڈراپ ہوجاتے ہیں۔‘
جگلوٹ سے سکردو تک کا راستہ اور سرچ آپریشن
جگلوٹ سے سکردو تقریباً 164 کلومیٹر کی مسافت پر ہے، جہاں اوپر سڑک اور نیچے دریائے سندھ بہتا ہے۔
گلگت کے مقامی صحافی اور ’میڈیا لینز ڈیجیٹل‘ کے ایڈیٹر شبیر میر اس واقعے پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔
شبیر میر کے مطابق یہ ایک دشوار گزار پہاڑی علاقے میں بنی سڑک ہے، جہاں ماضی میں کئی حادثات پیش آ چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’2023 میں اسی روڈ پر سیاحوں کی ایک گاڑی دریائے سندھ میں گری تھی اور ان سیاحوں کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شبیر میر کے مطابق اس روڈ پر ہراموش علاقے سے سکردو تک بعض جگہیں ڈرائیونگ کے لحاظ سے بہت خطرناک ہیں جبکہ لینڈ سلائڈنگ کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے۔
جگلوٹ سے سکردو جاتے ہوئے تقریباً دو گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد سسی اور پھر دمبوداس کا علاقہ آتا ہے، جو گلگت بلتستان کے ضلع روندو کا علاقہ ہے یعنی ضلع سکردو پہنچے سے پہلے ضلع روندو کو کراس کرنا پڑتا ہے۔
سیاحوں کو تلاش کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کو بھی چیک کیا گیا اور ایک سی سی ٹی وی کیمرے میں گاڑی جگلوٹ سکردو روڈ پر 16 مئی کی صبح 10 بج کر 37 منٹ پر سسی کے علاقے میں دیکھی گئی۔
پولیس کے مطابق سسی سے آگے دمبوداس کی بڑی چیک پوسٹ پر لاپتہ سیاحوں کی گاڑی گزرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور اسی وجہ سے جگلوٹ اور دمبوداس کے درمیان کے علاقے میں سرچ آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
ضلع سکردو کے ریسکیو1122 کے بیان کے مطابق جگلوٹ سکردو روڈ پر عالم برج سے شنگوس کے علاقے سسی (جہاں سیاحوں کی گاڑی دیکھی گئی ہے) تک سرچ آپریشن کیا گیا ہے، جو سکردو روڈ میں آتا ہے۔
شبیر میر نے بتایا کہ جگلوٹ سکردو روڈ پر چھوٹی آبادیاں تو موجود ہیں لیکن راستے میں ایسا کوئی سیاحتی مقام موجود نہیں، جہاں سیاح جا سکیں۔
ریسکیو رضاکار کیا کہتے ہیں؟
سید عمر فاروق کا تعلق گجرات سے ہے اور وہ الخدمت ایڈونچر کلب کے رکن ہیں، جو گلگت میں نوجوانوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کا حصہ رہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے سرچ آپریشن پر فوکس کیا، کیونکہ پہلے دو تین دنوں میں پولیس اس وجہ سے ایکٹیو نہیں ہو رہی تھی کیونکہ اس علاقے میں سنگلز کے مسئلے موجود ہیں اور سیاح دو تین دن بعد اکثر فیملی سے رابطے میں آجاتے ہیں۔
’پولیس ایکٹیو ہو گئی۔ دوسرا ان نوجوانوں کو ٹریکنگ کا کوئی تجربہ نہیں ہے کہ بندہ کہے کہ وہ کسی پہاڑ پرٹریکنگ کے لیے جا کر لاپتہ ہو گئے ہوں گے۔‘
عمر فاروق نے بتایا، ’ان کے پاس گاڑی بھی اس روڈ کے مطابق نہیں تھی تو یہ خدشہ تو کم ہے لیکن سکردو روڈ خطرناک ہے اور یہاں اورسپیڈنگ سے مسئلے آسکتے ہیں، اسی وجہ سے ہم نے اسی روڈ پر سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن شروع کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’آج سرچ آپریشن کے دوران سکردو جگلوٹ روڈ پر سفید رنگ کی گاڑی گہری کھائی میں گری ہوئی نظر آئی، جس کے حوالے سے بعد میں تصدیق ہوئی کہ یہ انہی سیاحوں کی گاڑی ہے۔‘