استغاثہ کا موقف ہے کہ جب تک نو مئی 2023 کے مقدمات میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے پولی گراف ٹیسٹ نہیں ہوں گے، ان مقدمات کی تفتیش مکمل نہیں ہو سکے گی، تاہم قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ عدالت کی نظر میں پولی گراف ٹیسٹ اتنا معتبر ثبوت نہیں ہے، جس کی بنیاد پر سزا ہو سکے۔
سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’پولی گراف ٹیسٹ کوئی سند نہیں ہے، جس سے یہ پتہ لگایا جائے کہ ملزم سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ اور نہ ہی اس بنیاد پر کوئی سزا ہو سکتی ہے۔
’یہ استغاثہ کی طرف سے اتمام حجت ہو سکتا ہے کہ وہ جواز بنائیں کہ تفتیش کے لیے یہ ضروری ہے یا اس کی وجہ سے تفتیش رکی ہوئی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ استغاثہ ضمنی طور پر لکھ سکتی ہے کہ ملزم کا ٹیسٹ کروانا تھا لیکن ملزم نے تعاون نہیں کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہ خاور نے مزید کہا کہ ’ماضی میں بھی مختلف کیسوں میں استغاثہ کی جانب سے پولی گراف ٹیسٹ کا سہارا لیا گیا۔ جس میں قصور زینب ریپ کیس اور نور مقدم کیس کی مثال موجود ہے، لیکن زینب ریپ کیس میں ملزم کا پولی گراف ٹیسٹ کچھ ثابت نہیں کر سکا تھا، اس کیس میں ڈی این اے نے کیس کو ثابت کیا تھا۔
’جبکہ نور مقدم کیس میں ملزم ظاہر جعفر کا بھی پولی گراف ٹیسٹ ہوا تھا لیکن عدالت میں شواہد کے طور پر فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کو تسلیم کیا گیا تھا، جو سی سی ٹی وی فوٹیج تھی، اس سے ظاہر جعفر کو میچ کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’فوجداری مقدمات میں عدالت سی سی ٹی وی فوٹیج کو فرانزک کے بعد بطور ثبوت تسلیم کر لیتی ہے، لیکن پولی گراف ٹیسٹ مضبوط شواہد میں نہیں آتا۔ اس کا ہونا نہ ہونا کیس کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوتا۔‘
دوسری جانب بیرسٹر کامران الیاس راجہ کہتے ہیں کہ یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ پولی گراف ٹیسٹ کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’جدید ڈیوائسز کو قانونِ شہادت میں استعمال کر سکتے ہیں۔ پولی گراف ٹیسٹ حقائق کو جاننے اور جانچنے کے لیے آپ استعمال تو کر سکتے ہیں لیکن اس کو تسلیم کرنا عدالت کا دائرہ کار ہے کہ وہ تسلیم کرے یا نہ کرے۔ عدالت اگر سمجھے کہ یہ معتبر ثبوت ہے تو وہ مان لیں گے، اگر عدالت اس ثبوت کو سند نہیں دیتی تو اس کی اہمیت نہیں ہو گی۔‘
پولی گراف ٹیسٹ کیا ہے؟
پولی گراف ٹیسٹ یا سچائی جانچنے کا ٹیسٹ ایک ایسی مشین کی مدد سے کیا جاتا ہے، جو انسان کے جسم میں پیدا ہونے والی مختلف طبعی تبدیلیوں کی مدد سے اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آیا وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ، مثلاً سوال کے دوران دل کی دھڑکن کا تیز ہونا یا جسم میں اضطراب پیدا ہونا۔
پولی گراف ٹیسٹ میں ملزم کے ہاتھوں کے ساتھ ایک مخصوص مشین کی تاریں لگائی جاتی ہیں، جو اس کے جسم کی حرکات کو جانچتی ہیں اور انہیں ریکارڈ کرتی ہیں۔ ماہرِ نفسیات ملزم سے مختلف طریقوں سے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں اور اس دوران مشین کی ریڈنگ میں بھی چیک کرتے ہیں آیا کہ دھڑکن یا اضطراب میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔
پولی گراف ٹیسٹ کتنا قابلِ اعتبار ہے؟
جب سے یہ ٹیسٹ وجود میں آیا ہے، اس کی ساکھ پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں، لیکن موجودہ دور میں بیشتر سائنسی اداروں کا خیال ہے کہ یہ ٹیسٹ ناقابلِ اعتبار ہے۔
امیریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کے مطابق پولی گراف ٹیسٹ پر سچ یا جھوٹ کو پکڑنے کے لیے اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے علاوہ امریکہ کی نیشنل ریسرچ کونسل کے ایک پینل نے 2003 میں جائزہ لینے کے بعد رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا کہ پولی گراف ٹیسٹ کی کوئی افادیت نہیں ہے۔
نو مئی کیسز میں عمران خان کا پولی گراف ٹیسٹ
لاہور پولیس کی ایک 13 رکنی ٹیم گذشتہ دو دن سے راولپنڈی میں عمران خان سے نو مئی کے 11 مقدمات کے حوالے سے تفتیش اور پولی گراف ٹیسٹ کے لیے موجود تھی، تاہم بانی پی ٹی آئی نے ان مقدمات میں شاملِ تفتیش ہونے اور پولی گراف، فوٹوگرامیٹک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کروانے سے انکار کر دیا۔
رواں ماہ 14 مئی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نو مئی کے مقدمات میں عمران خان کا پولی گراف ٹیسٹ کروانے کی اجازت دی تھی، جس کے لیے پراسیکیوشن نے انسداد دہشت گردی عدالت میں باقاعدہ درخواست جمع کروائی تھی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ عمران خان سے نو مئی واقعات کے حوالے سے سچائی جانچنے کے لیے پولی گراف سمیت دیگر ضروری سائنسی ٹیسٹ کروانا اہم ہے۔